قابض سے گلہ شکوہ کیوں؟ ۔ ناشناس بلوچ

476

قابض سے گلہ شکوہ کیوں؟

 تحریر: ناشناس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

قابض کی اتنی لمبی چوڑی تعارف ہی نہیں بس اتنا ہی کافی ہے کہ مقبوضہ قوم کو روندھنے والا قابض ہوتا ہے اور اسی روندھنے کی تسلسل میں مقبوضہ قوم کی تمام تر شناختی اقدار کو مسخ اور ساحل و وسائل کی لوٹ مار کے عمل قابض کے قبضہ گیری تعارف کو مزید مستحکم بناتے ہیں جو کہ قابض کی نفسیاتی اشقاق میں سے اہم شق ہے۔ تو ہم سمجھنے سے قاصر کیوں ہیں کہ جب قابض کی سلیس تعارف سے ہی واضح ہوتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنی مفاد کو سامنے رکھ کر اس سے زیادہ کسی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تو قابض کے سامنے فریاد کیسی؟ ایا وہ ان تمام سسکیوں کو اہمیت دیتا ہے اپنی مفاد سے زیادہ؟ یا یوں کہنا بجا ہوگا کہ بالکل نہیں؟

اسی طرح بلوچستان اور پنجابی سامراجیت کا رشتہ صرف اور صرف قابض اور مقبوضہ کی ہے۔تو اس ناجائز رشتے کو لیکر ہم پنجاب کے آگے سر جھکا کر درخواست کیوں کریں اور مان بھی جائیں کہ ہم اس وقت تمھارے سامراجی تسلسل کے ساتھ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور تم(پنجاب) مہربانی کرکے ہماری کچھ مانگیں مان لو جن میں۔لاپتہ افراد کی بازیابی،انصاف،مسخ شدہ لاشیں پھینکنا بند کرو اور بہ حیثیتِ غلام قوم کے ہم آزادی مانگیں گے اور تُم ہم پر رحم کرتے رہو یہ سب بالا بازو و نچلا پنجہ کے زمروں کی تشکیلی گفتگو میں آتی جسے ریاست کی بیانیہ کو مان کر آزادی کی بات کرنے کی مترادف کہا جائے تو بہتر ہوگا۔

پنجاب کے سامراجی روئیے جو بلوچستان پر قابض ہیں تو جیسے وہ چاہتے ہیں بلوچستان ہر سامراجانہ تسلط قائم کرسکتے ہیں اور اس تسلط کو محض خیالی قوم پرستانہ مزاج سے شکست دینا نا ممکن ہے جو محض ایشوز کے دائروں کے گرد گھوم کر سکون کی سورج کے ساتھ غروب ہوگا۔
گوادر پاکستان و چین کی مخصوص لوٹ مار کی نزر میں ہے جب کہ گوادر بلوچ کے بے بہا مڑیوں میں سے ایک ہے جو کہ چین اپنی سامراجی لولی پاپ کو گوادر کی مٹھاس لگا کر چوس رہی ہے اور گھٹلیاں نام نہاد اسلامی جمہوریہ کے سامنے پھینک رہی اور انہی گھٹلیوں کی دام میں پنجاب کی سامراجی چہرے کو میک اپ کی جارہی ہے۔تو سوال یہاں اٹھتا ہے کہ ایا بلوچ پاکستان کی میک اپ شُدہ دلہن(پنجاب) کو محض باتوں سے یا گلے شکوے سے شکست دے سکتی ہے؟ ایا ان نعرے و جزباتی الفاظوں سے پنجاب کی مائیں اپنے بچوں کو بلوچستان بھیجنے سےکتراتی ہیں۔

یا ہمیں بس نام کی ہی پڑی ہے کہ چلو تم نے گوادر کو قبضہ تو کرلیا اب اسکے ترقیاتی منصوبوں کو ہمارے آبا و اجداد کے نام سے منسوب کرو جو کہ ہماری قومی استحصالی کے نام کو چُھپا ترقی کی نام پارہے ہیں۔یہ سوچ افسانوی دنیا کو حقیقت کا غلاف چھڑا کر قوم پرستی کے معیار کم کرکے نادم کردیتا ہے۔اختیار کی موضوعی دنیا بہت الگ ہے کہ انہیں کون؟ کب اور کہاں؟ عمل میں لائے۔غلامی بے اختیاری ہے غلامی نیم مردہ انسانی سماج کی عکس ہے اور غلامی ہی کمزوری ہے تب تک آپ صاحبِ اختیار نہیں ہوسکتے جب تک آپ میں خود مُختیاری کے پختہ خواہش یا پیروکاری کے جامد گُر نہیں ہو۔

ہمارے آبا و اجداد کی عزت ریاست کی نظر میں!

وہ جن کو ہم اپنے قومی ہیروز کہتے ہیں جنکے نظریہ کے سائے تلے بلوچ قومی تحریک عروج پارہی ہے جنکے سکھائے اسباق ہمارے لئے مشعلہ راہ ہیں۔ایا وہ پنجابی کی نظروں میں بھی ہیروں ہیں یا انہیں پنجابی سامراج نے دہشت گرد ڈکلئیر نہیں کیا ہے یا انہیں دشمن کی نگاہ سے نہیں دیکھتا؟یا جو بلوچ کی آزادی کے خواہاں ہیں وہ پنجاب کی دشمن نہیں؟تو پھر بلا پنجاب کیونکر بلوچ کے ہیروز کو منسوبیت نوازے۔

استاد اسلم کی شہادت پر پنجاب کے گود میں بیٹھا (اے آر وائی) میڈیا چینل نے جو بُرے القاب نوازے تھے کیا وہ بلوچ ایکٹویسٹ یا سیاسی کارکنوں کی یاداشت میں محفوظ ہیں اگر ہاں تو اب بھی وہ اپنی قومی رہبروں کی عزت کا بھیک پنجاب سے کیوں مانگ رہے ہیں؟
اسی طرح بلوچ کے ہر فرزند کو شہید کرکے ریاست نے دہشت گرد کے لقب کو بار بار دہرایا۔

مگر ہم شاید ماننے کے منکر ہیں یا راستے کے بھٹکے ہوئے مسافر ہیں کہ سوچ کچھ اور ہے بول کچھ اور لیتے ہیں اور عمل بھی سوچنے اور بولنے کے متضاد نہیں۔

اگر ریاست کی ظلم رحمت کی شکل اختیار کرے بھی تو بلوچ کے زخم ما سوائے آزادی کے نہیں بھرتے کیونکہ بلوچ کی تاریخ لہو لوہان ہے اگر ریاست نام نہاد ترقیاتی کام و منصوبوں کو بلوچ رہبران کے نام سے منسوب کرے بھی تو بلوچ قومی سوال کو مستقل جواب نہیں ملتا جو کہ آزادی کے اقدار کے ساتھ وابستگی رکھتی ہے۔

فکری حد بندیوں کو تول کر آزادی کے الفاظ مزاحمتی شکل اختیار کرکے قابض کو تکلیف پہنچاتے ہیں جو جہد و جنگ کی اخلاقیات ہیں۔جنگ ہی سامراج کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے جنگ ہی نئی دنیا کی خالق بن سکتی ہے۔جنگ اپنے تمام درجات کو پار کرکے خودمختیاری کی سورج کو طلوع کرنے میں ماہر ہے۔جنگ آزادی کی فن ہے وہ فن جس کے سُر و دھُن سامراجی شعاع کو تھوڑ کر آزادی کے تحفے کو چِھین کر منہ موڑ لیتا ہے۔

جنگ ماتم کے منکر ہے،جنگ میں انصاف نہیں نا مارنے والے کو نا مرنے والے کو،جنگ انصاف کے جِرگوں کو نہیں مانتا،جنگ مزاکرات سے انحراف کرتی ہے تب تک کہ برابری نہ آئے۔

تو حالت جنگ میں خاص کر وہ قوم جو دشمن سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہو وہاں انصاف کے نعرے محض بانگِ مرغ کی طرح ہوتے ہیں جنہیں سُنتا ہر کوئی ہے مگر غور و فکر سے عاری ہوتے ہیں۔اور اسی طرح قابض کے سامنے انصاف کی بھیک یا عزت کی کٹورے کوئی معنی نہیں رکھتے۔

آزادی کے سوچ کو عملی جامہ پہنانا مزاکرات اور انصاف کی بھیک سے کوسوں دور ہے قابض کو جس آواز نفرت ہے تو وہ صرف بندوق کی آواز ہے جس سے قابض کو یہ ڈر محسوس ہونے لگتا ہے کہ اب اسکی شکست حقیقی ہے۔تو سوچو کہ قابض ریاست کو اسکے خلاف لگنے والے نعرے زیادہ تکلیف دیتے ہیں؟یا وہ شکوے کہ ائرپورٹ کو کسی پنجابی کے نام سے کیوں منسوب کیا؟یا اسی گوادر میں سربلند کی فدائی فکر جس کی گونج سے چین جیسی سامراج کھانپ جاتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔