بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے دوسری بار جبری گمشدگی کے شکار فیاض علی کی بیوی نرگس فیاض نے کوئٹہ میں پریس کی ہے۔ اس وقت وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ان کے ہمراہ تھے۔
نرگس فیاض نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے چہرے آپ کیلئے نئے نہیں ہونگے، اس سے قبل بھی میں کئی بار اس کمرے اور اس سے باہر اپنے خاوند کی تصویر اٹھائے آپ لوگوں کے سامنے آتی رہی ہوں۔ جبری گمشدگیاں بلاشبہ اذیت کی وہ قسم ہے جس نہ صرف لاپتہ شخص بلکہ اسکے ہمراہ اسکا پورا گھر، و خاندان اذیت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ میں اور میرا گھر اس کُرب سے گذر چکے ہیں اور آخر خوش قسمتی میرے خاوند کی بحفاظت بازیابی کی صورت میں ہمارے گھر کی خوشیاں واپس لوٹ آئی۔
نرگس فیاض نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میرے خاوند فیاض علی کو پہلی بار 30 اگست 2021 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، اس دوران میں نے تمام قانونی تقاضوں کے مطابق ایف آئی آر درج کی، انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا، ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا اور پریس کانفرنس و سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی آواز متعلقہ قوتوں اور اداروں تک پہنچانے کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا پیارا اسکے سامنے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہو تو وہ گھر میں آرام سے بیٹھ نہیں سکتی، کئی مہینے گذرنے کے بعد میرے سامنے صرف پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کا ہی راستہ بچا جو میں نے اپنایا۔ میرے خاوند فیاض علی کو بالآخر 9 مہینے تک جبری لاپتہ رکھنے کے بعد 21 مئی 2022 کو بازیاب کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گوکہ ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ماورائے قانون و آئین عمل تھا جبکہ دنیا کے کسی بھی کھونے میں جبری گمشدگیوں کو کوئی قبول نہیں کرسکتا ہے۔ اب ہم اپنی زندگی کو ان اذیتوں کے بعد دوبارہ سمت دینے کی تاحال کوششوں میں تھے تو ہمیں پھر سے اذیتوں کی جانب دھکیلا جارہا ہے۔
نرگس فیاض نے کہا کہ گذشتہ رات بغیر کسی وارنٹ گرفتاری کے سیاہ وردی میں ملبوس سرکاری اہلکار تقریباً رات تین بجے ہمارے گھر میں گھس کر میرے خاوند فیاض علی کو دوسری مرتبہ جبراً حراست میں لیکر ایک بار پھر ہماری زندگیوں کو ایک اندھیر نگر کی جانب دھکیل دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس غیر انسانی عمل کے خلاف جب میں نے پولیس تھانہ سے رجوع کیا تب بھی مثبت تعاون نہیں کی گٸی جبکہ یہ ہمارے قانون میں ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر کسی بھی گمشدہ اور مغوی شخص کی ایف آٸی آر کرنا لازم ہے۔ سرکارٕی ادارے غیر سنجیدگی کا جو مظاہرہ کر رہی ہے اس سے اگر فیاض کو خدانخواستہ کوٸی بھی نقصان ہوا اسکی ذمہ دار ملکی ادارے ہونگے۔
نرگس فیاض نےکہا کہ جبر کا یہ سلسلہ یہاں بھی ختم نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل فروری 2023 میں ہمیں معلوم ہوا کہ مجھے نرگس فیاض اور میرے خاوند فیاض علی کو سی ٹی ڈی تھانہ کوئٹہ میں ایک ایف آئی آر کے بعد چالان کاٹ کر مفرور قرار دیا گیا۔
مذکورہ ایف آئی آر 8 نومبر 2022 کو درج کیا گیا جس میں دھماکہ خیز مواد، اسلحہ وغیرہ کے کیسز لگائے گئے تھے جبکہ 22 دسمبر 2022 کو پرچہ کاٹ کر ہمیں مفرور قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ ایف آئی آر اور چالان کے حوالے سے ہمیں کم از کم تین مہینے گذرنے کے بعد پتہ چلا، اس دوران نہ ہم سے کسی ادارے نے رابطہ کیا اور نہ ہی ہمیں طلب کیا گیا بلکہ یک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے ہمیں دیگر دو افراد کے ہمراہ مفرور قرار دیا گیا بعد ازاں ہم نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے چند سرکاری گواہان کے بناہ پر میری اور میرے خاوند فیاض علی کی ضمانت منظور کردی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے اس سے قبل بھی ایک غیر قانونی، غیر آئینی و غیر انسانی عمل کیخلاف جمہوری و قانونی راستہ اپنایا اور اب بھی ہم اسی راستوں کو اپنائینگے لیکن یہ بلا جواز کسی معصوم کو مفرور قرار دیکر اسکو لاپتہ کرنے کا عمل واضح طور پر ہمیں ہراساں کرنے کا عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم حکام بالا، اعلیٰ عدلیہ اور انسانی حقوق و سیاسی جماعتوں و تنظیموں تک اپنی بات پہنچانے چاہتے ہیں کہ اس طرح کی کاروائیوں کے نام پر ہمیں ہراساں کرنے کے عمل کا نوٹس لیں اور ہمیں پھر سے اذیت و کرب کے زندگی میں دھکیلنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرکے فیاض علی کی بازیابی کو جلد از جلد یقینی بناٸیں۔