قصور وار سمعیہ قلندرانی نہیں بلکہ اس کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرنے والے ہیں۔ کسی واقعے کی مذمت کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے اسباب کو دیکھنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار سردار اختر جان مینگل نے کوئٹہ میں سیمینار سے خطاب میں کیا۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیراہتمام ‘عالمی یوم متاثرین جبری گمشدگی’ پر کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے خطاب کرتے ہوئے تربت میں پاکستانی خفیہ اداروں کے افسران پر ‘فدائی’ حملہ کرنے والی بی ایل اے مجید برگیڈ کی رکن سمعیہ قلندرانی بلوچ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سمعیہ قلندرانی کو اس قدم اٹھانے پر مجبور کرنے والے ذمہ دار ہیں ۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ میں اس طرح کے عمل کی کبھی حمایت نہیں کرتا ہوں لیکن واقعات کی مذمت کرنا کافی نہیں بلکہ اس کے اسباب کو جاننا بھی ضروری ہے کہ اس بچی نے اس طرح کا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ آپ ویڈیو میں صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ایک بچی دوڑتے ہوئے آکر گاڑی کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا دیتی ہے لیکن اس اقدام کا پس منظر بھی دیکھیں، اس خاندان کے 34 افراد لاپتہ کردیئے گئے جن میں کچھ واپس آگئے جبکہ 17 افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ اس بچی )سمعیہ قلندارانی( کے دو مامو اٹھا لیے گئے تھے، اس کا نانا حاجی عبداللہ ہماری پارٹی میں تھا، جو خضدار میں ایک زمانے میں ہمارے پارٹی کا عہدیدار تھا۔ حاجی عبداللہ کے دو بیٹے لاپتہ کردیئے گئے پھر اس کیلئے پیغام کیا گیا کہ آپ بلوچستان نیشنل پارٹی چھوڑ دیں تو آپکے دونوں بیٹے صحیح سلامت رہا کردیئے جائینگے۔
اختر جان مینگل نے کہا پتہ چلنے پر میں نے حاجی عبداللہ کو بیٹوں کی بازیابی کیلئے پارٹی چھوڑنے کا کہا، بعدازاں بی این پی کیخلاف حاجی عبداللہ سے پریس کانفرنس کرائی گئی لیکن تاحال اس کے بیٹے بازیاب نہیں ہوسکے ہیں جبکہ دو سال قبل حاجی عبداللہ وفات کرگئے اور ان کی اہلیہ بیٹوں کی جدائی میں حواس کھو چکی ہے۔
بلوچوں کو دہشتگرد کہنے پر سردار اختر مینگل نے ایک شئر کہا؛ وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں ہوتے ہیں، مسلسل جبر سے دلوں میں ڈر نہیں رہتے۔
سردار اختر مینگل نے مزید کہا کہ بچی نے جو اقدام اٹھایا چاہے اس کو کوئی غلط کہیں لیکن غلط وہ ہے جنہوں نے اس کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا، جنہوں نے اس کو مجبور کہ اپنی جوانی کو خیر باد کہہ کر جیکٹ پہن کر وہاں پہنچی۔
انہوں نے کہا کہ آپ ایک فرد، خاندان، قبیلے یا گاوں کو اذیت نہیں دے رہے ہو بلکہ آپ نے ایک پوری قوم کو اذیت میں ڈالا ہے۔ بلوچستان میں کوئی بھی ایسا شہر، گاوں یا قبیلہ نہیں ہوگا جس میں لوگ لاپتہ نہ ہو، انسان کی موت اتنی اذیت ناک نہیں ہوتی ہے جتنی اپنے پیاروں کی واپسی کے انتظار میں زندگی ہوتی ہے۔