عبدالروف کا قتل؛ مذہبی انتہاء پسندی کے شدت میں اضافے کا اشارہ
دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ
تحریر: فرید بلوچ
بلوچستان کے علاقے ضلع کیچ میں ایک اسکول ٹیچر عبدالرؤف کی ہلاکت نے بڑے پیمانے پر تشویش پیدا کیا ہے۔ مبینہ طور پر مذہبی الزامات کے تحت قتل کیے گئے، عبدالرؤف کی موت اس خطے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے مذہبی کشیدگی کی علامت ہے جو تاریخی طور پر اپنی سیکولر اقدار کے لیے جانا جاتا ہے۔
عبد الرؤف ایک “مذہبی جرگے” کے لیے جا رہے تھے، اُسے جرگے کے راستے میں ہی قتل کیا گیا جب وہ جرگہ خود پر لگے مذہبی الزامات کو حل کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ ان الزامات کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں، لیکن مہلک نتیجہ ناقابل تردید ہے۔
ردعمل:
عبد الرؤف کے مبینہ قتل کے خلاف مختلف حلقوں کی جانب سے فوری ردعمل سامنے آیا ہے۔ جہاں بی این ایم کے انسانی حقوق کے شعبے، پانک نے صورت حال کی سنگینی پر تبصرہ کیا، جس میں پاکستانی آرمی کی جانب سے ڈیتھ اسکواڈز کے قیام اور بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندوں کے بڑھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بلوچ کارکن، نیاز بلوچ نے تاریخی سیکولر اقدار اور بلوچ سماج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم پرستی کے مقصد سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کا استعمال تشویشناک ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن ماہ رنگ بلوچ نے وسیع تر مضمرات پر روشنی ڈالی، ان کا کہنا تھا کہ”مذہبی مقاصد کے لیے ایک بلوچ نوجوان کا ریاستی سرپرستی میں قتل ہمارے سیکولر معاشرے کے لیے ایک نیا چیلنج پیش کرتا ہے۔ پھر بھی، ریاست کی طرف سے یہ ’مذہبی گفتگو‘ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ریاست نے برسوں سے بلوچوں کے سیاسی شعور کو دبانے کے لیے ڈیتھ اسکواڈز کا استعمال کیا ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے چیئرپرسن ڈاکٹر نسیم بلوچ نے ٹویٹر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیچ میں عبدالرؤف بلوچ کا قتل ایک افسوسناک اور قابل نفرت فعل ہے۔ برسوں سے، پاکستان کی جانب سے مذہب کے استعمال کے ذریعے سے بلوچوں کو مظلوم رکھنے پر خبردار کرتے رہے ہیں، لیکن بلوچ اپنی سیکولر اقدار کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔”
صحافی کیا بلوچ نے ایک تاریخی سیاق و سباق فراہم کیا: ان کا کہنا تھا کہ “مکران میں مدارس کو قوم پرستانہ جذبات کا مقابلہ کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے ایسے ادارے پنجگور، کیچ اور گوادر میں وسیع پیمانے پر پھیل گئے۔
اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک اور صحافی علی جان مقصود کا کہنا تھا کہ ” رپورٹس بتاتی ہیں کہ عبدالرؤف کو ان کی موت سے پہلے اپنے مذہبی عقائد کا دفاع کرنے کے لیے ایک مذہبی جرگے میں بھیجا گیا تھا۔ ایسے واقعات بلوچستان میں جاری نسل کشی کو نمایاں کرتے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مفتی شاہ میر جیسے مذہبی شخصیات پر شدید تنقید کی۔ ان پر الزام لگایا کہ ذاتی فائدے کے لیے وہ توہین رسالت کے دعوں کا سہارا لیتے ہیں، اسی طرح تعلیمی اداروں پر ان کا بے جا اثر و رسوخ ہے۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر بلوچ آبادی کو مزید تقسیم کرنے کے امکانات پر زور دیتے ہوئے ایسے ریاستی حمایت یافتہ مذہبی چالوں کے خلاف خبردار کیا۔
تربت سول سوسائٹی نے تربت میں توہین مذہب کے الزامات کے غلط استعمال پر افسوس کا اظہار کیا، جس کا نتیجہ عبدالرؤف کی المناک موت پر ہوا۔ انہوں نے مکران خطے کی تاریخی مذہبی ہم آہنگی کو اجاگر کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کی بے عملی کی نشاندہی کی۔
تاریخی تناظر:
بلوچستان نے ہمیشہ اپنے سیکولر تشخص کو بلند رکھا ہے۔ تاریخی طور پر ایک کثیر النسلی علاقہ، یہ خطہ بقائے باہمی کا ایک نشان رہا ہے، جہاں متنوع قبائل، رسوم و رواج اور عقائد مختلف ادوار میں بغیر کسی رکاوٹ کے ساتھ رہتے آرہے ہیں۔ بلوچوں نے ہمیشہ اپنی سیکولر ثقافت پر فخر کیا ہے، یہاں تک کہ مذہبی تنوع میں ڈوبی ہوئی قوم کے پس منظر میں بھی۔
تاہم، اس ہم آہنگ ٹیپسٹری نے حالیہ دہائیوں میں تناؤ کے آثار دکھانا شروع کر دیے ہیں۔ ایک قابل ذکر مثال 2014 میں گوادر میں دی اوسس سکول کے بانی زاہد آسکانی کا قتل ہے۔ ریاستی سرپرستی میں مشتبہ مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں اس کی ہلاکت نے خطے کے ماہرین تعلیم اور قوم پرستوں کو درپیش خطرات کی نشاندہی کی۔
مذہبی انتہا پسندی کا تعلق:
آج، ریاستی طاقتوں کے مذہبی پولرائزڈ شناخت کو آگے بڑھانے کے حوالے سے خدشات بڑھ رہے ہیں، جو عبدالرؤف کے قتل جیسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے واقعات تیزی سے خطرناک حد تک اپنے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ یہ تبدیلی 2001 میں خاص طور پر حرکت میں آئی جب افغانستان پر امریکی حملے کے بعد، پڑوسی ملک سے اسلام پسند گروہوں نے بلوچستان میں پناہ حاصل کی اور آہستہ آہستہ بلوچستان کے سماجی اور مذہبی ماحول پر اثرانداز ہوئے۔
مزید برآں، بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بلوچستان میں آزادی کے حامی قوم پرستانہ جذبات کو روکنے کیلئے ریاست کی انسداد بغاوت حکمت عملی مذہبی بنیاد پرستی پر منحصر ہے۔ اس حکمت عملی کے نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ اگر چہ اس کا مقصد بلوچ قوم پرست جذبات کا مقابلہ کرنا تھا، لیکن اس نے دانستہ یا نادانستہ طور پر مذہبی عدم برداشت اور فرقہ وارانہ تنازعات کو فروغ دیا ہے۔ آج مذہبی اور نسلی اقلیتیں جیسے ہزارہ، ہندو اور ذکری اس حکمت عملی کے منفی اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
بدلتے مناظر نے بھی اس خطے میں انتہا پسند دھڑوں کے لیے سازگر ماحول پیدا کیا ہے۔ ٹی ٹی پی جیسے گروہ اپنے نظریات کے بیج بونے اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے زرخیز زمین تلاش کرتے ہیں، جو خطے کے روایتی طور پر سیکولر اخلاق کو چیلنج کرتے ہیں۔
مذہبی بنیاد پرستی کے رحجانات میں انفرادی چہرے بھی اکثر اوقات نظر آتی ہیں۔ ایک نام جو اکثر ابھرتا ہے وہ شفیق مینگل کا ہے، جو ریاستی سرپرستی میں “ڈیتھ اسکواڈ” کے رہنما اور مسلح دفاع تنظیم (MDT) کے بانی ہیں۔ شفیق مینگل نے 2008 کو ایم ڈی ٹی قائم کیا اور خیال کیا جاتاہے کہ اس کے دیگر مذہبی انتہا پسند گروہوں سے قریبی تعلق ہے۔
مبینہ طور پر شفیق مینگل کے تعلقات کراچی میں دیوبندی مدرسے اور لشکر طیبہ جیسے مذہبی شدت پسند دھڑوں سے ہے۔ ایک بدنام زمانہ ’ڈیتھ اسکواڈ‘ کے رہنما کے طور پر، وہ قوم پرست اور قبائلی مخالفین کے خلاف ہمیشہ پُر تشدد رہے ہیں۔ تاہم، اُس کی حمایت کرنے والے ڈھانچے جیسے کہ آئی ایس آئی، نام نہاد دولت اسلامیہ اور لشکر جھنگوی العالمی ان کی قیادت اور آئی ایس آئی کی نگرانی میں وڈھ کیمپ میں تربیت پاتے رہے ہیں جو کہ زیادہ تشویش کا باعث ہے۔
مزید پیچیدہ افراد مفتی شاہ میر عزیز جیسے لوگ ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عبد الرؤف کے قتل میں برائے راست ملوث ہیں۔ شاہ میر عزیز دینی مدارس کی آڑ میں مذہبی انتہا پسند گروہوں کی سربراہی کرتا ہے۔ایسے ادارے مخصوص مذہبی عقائد کا پرچار کرتے ہیں اور فوج کے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں، بلوچستان پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ریاست کی طرف سے دوہری طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
آج بلوچستان انتہائی اہم مسائل سے دو چار ہے، ریاستی اثرورسوخ، ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی انتہا پسندی کا آپس میں گتھم گتھا ہونے سے بلوچستان کے تاریخی سیکولر اقدار کو خطرہ ہے، جس سے بلوچوں کی دیرینہ اقدار کا مستقبل غیر یقینی ہے۔