کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5133 ویں روز جاری رہا۔
اس موقع پر کیمونسٹ پارٹی پاکستان کے مرکزی سیکریڑی جنرل قاضی امداد سلطان، یحییٰ نیک محمد اور بلوچ وطن پارٹی کے مرکزی کنوینئر حیدر رئیسانی اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
تنظیم کے مرکزی وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ سیاسی کارکنان اور طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے اس ریاستی جبر کے خلاف ہمارا جدوجہد جاری ہے۔
دریں اثنا عبد الرحمٰن ولد محمد بخش مری کے لواحقین نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ انہیں 13 جنوری 2015 کو نیوکاہان ہزار گنجی سے صبح آٹھ بجے گھر سے چار دیگر افراد سمیت پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لینے کے بعد پولیس تھانہ کسٹم کوئٹہ منتقل کیا بعد میں شخصی ضمانت پر ایس ایچ او قادر قمبرانی نے انہیں چھوڑ دیا اگلے دن دوبارہ قادر قمبرانی کے کال موصول ہوا کہ ان لوگوں کو دوبارہ پیش کیا جائے پیش کرنے کے وقت ایس پی سریاب ظہور احمد آفریدی اور ایس پی غفور لاگانی مری بھی موجود تھے جن کے عبدالرحمن مری سمیت دیگر چار افراد کو بجلی گھر تھانہ کوئٹہ منتقل کیا گیا ایک رات بعد بجلی گھر تھانہ سے شام مغرب کے نماز کی وقت خفیہ اداروں کے اہلکار آئے اور عبدالرحمٰن سمیت دیگر افراد کے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا ۔
انہوں نے کہا کہ 20 دن بعد ماسٹر اعظم ولد احمد خان کو چھوڑ دیا گیا اس کے بعد پورے 8 ماہ کے بعد حمید اللہ ولد احمد حفظ اللہ ولد یار خان، نجب اللہ ولد نصیب اللہ کو رات 11 بجے قمبرانی روڈ پر چھوڑ دیا گیا لیکن عبدالرحمٰن مری تاحال لاپتہ ہے۔