بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کیچ میں نوجوان طالب علم اور استاد عبدالرؤف برکت کے قتل پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ عبدالرؤف کو مذہبی لبادہ اوڑھے پاکستانی فوج کے آلہ کار نام نہاد مفتی شھمیر نے قتل کیا، لیکن اصل قاتل پاکستانی ریاست اور اس کی فوج ہے۔ کوئی بھی لیبل لگاکر قتل سے ریاست بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔
ترجمان نے کہاکہ ایسے ہزاروں قتل کی ایف آئی آر تاریخ کی عدالت میں پاکستان کے نام درج ہو رہے ہیں۔جب احتساب کا وقت آیا تو پاکستان کو ایک ایک قتل کا جواب دینا پڑے گا۔نام نہاد مفتی شھمیر اس سے پہلے بھی کئی بلوچوں کے قتل میں ملوث ہے۔ وہ ریاستی ایما پر بلوچ معاشرے میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔شہید رؤف کا قتل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ وگرنہ بلوچ قوم صدیوں سے اس سرزمین پر آباد ہے مگر یہاں کبھی بھی مذہبی بنیاد پر یا ملاؤں پر تنقید سے کسی کا قتل نہیں ہوا ہے۔ انھیں ریاست اور چند نام نہاد قوم دوستوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ نام نہاد قوم دوست، ملا شھمیر اور ان جیسے کردار بلوچ قوم کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں۔
ترجمان نے کہا تاریخی طور بلوچ سماج سیکولر مزاج اور تشخص کا حامل سماج رہا ہے۔ یہاں مسلمان ، ہندو، سکھ، پارسی بلوچ سماج کا حصہ ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران پورے برطانوی ہندوستان میں مذہب کے نام فسادات پھوٹ پڑے اور لاکھوں لوگ تہہ تیغ کیے گئے لیکن بلوچستان اس مذہبی شدت پسندی سے مکمل طورپر محفوظ رہا کیونکہ بلوچ قوم نے اپنے تاریخی مذہبی رواداری پر مبنی روایات کو برقرار رکھا اور خطے میں لگی اس آگ سے اپنے سماج کو محفوظ رکھا۔
انھوں نے کہا پاکستان کے قیام کے بعد جب بلوچستان پر قبضہ کیا گیا تو بلوچ قوم کے دیگر طبقات کے ساتھ بلوچ علما کرام نے بھی قبضے کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی اور تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں درج کرایا۔ بلوچستان پر قبضے کے خلاف تحریک میں حالیہ ابھار آیا تو ریاست پاکستان نے قومی تحریک کو کچلنے کے لیے کثیرالجہتی حکمت عملی اپنائی۔ اس میں مذہب کے استعمال کو بھی شامل کیا گیا۔ ابتدا میں مذہبی منافرت کے لیے کوششیں شروع کی گئیں تاکہ ذکری نمازی کے نام پر بلوچ کو دست و گریبان کیا جائے۔ یہاں ریاست کی حکمت عملی کو بلوچ قوم نے ناکام بنایا تو دیگر جرائم پیشہ عناصر اور مذہبی لبادہ اوڑھے جرائم پیشہ افراد پر مشتمل لوگوں کو جہادی ناموں پر اکٹھا کیا گیا اور انھیں فوج کے ساتھ شراکت کے لیے بلوچ سماج میں کھلے عام جرائم کی چھوٹ دی گئی۔ مکران میں ان کی سرپرستی پیدارک کے جرائم پیشہ شھمیر کو سونپ دی گئی۔
ترجمان نے کہا پاکستانی فوج کے مذہبی لبادہ اوڑھے جھتوں نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مذہب کے نام پر کئی لوگوں کو قتل کیا اور قدیم مزاروں اور زیارتوں کو نذر آتش کیا۔ بلوچ سماج میں مذہبی منافرت پھیلانے کا اسکیم بری طرح ناکام ہوا لیکن فوج نے بدستور ان جھتوں کو برقرار رکھا۔ فوج کی جانب سے ان کی صف بندی کی گئی اور حالیہ جرم کا ارتکاب بھی اسے جھتے نے کیا۔ بلوچ سماج کے تمام طبقات نے اس کے خلاف آواز اٹھا کر ثابت کردیا کہ پاکستان بلوچ قوم کو مذہب کے نام اپنی تشخص، رواداری اورسیکولر سوچ سے دستبردار نہیں کرسکتا۔