شعور و علم سے خوفزدہ ریاست
تحریر : زویا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ نوجوان بالخصوص طلبہ کو بغیر کسی جرم کے لاپتہ کرنا، ٹارگٹ کلنگ، منشیات کا عادی بنانا کوئی نئی بات نہیں ہے یہ بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے جو دہائیوں سے چلتا آرہا ہے۔
حیات بلوچ کو آٹھ گولیاں مارنا، ملک ناز سانحہ، ڈنک سانحہ، بارکھان واقعہ اور ان جیسے ان گنت واقعات کوئی حادثہ نہیں، کوئی بھی زی شعور ان واقعات کو ہر گز حادثہ تصور نہیں کر سکتا۔
ازل سے ہر نو آبادیات نو آبادی پر تسلط جمانے کے لئے طرح طرح کے کالونیل ڈسکورس اپناتا ہے جس میں مزہبی شدت پسندی اور علم و شعور پر قدغن اول درجے کے ڈسکورس رہے ہیں، خضدار میں شفیق مینگل کی شکل میں مزہبی شدت پسندی کو فروغ دیکر باشعور افراد کی نسل کشی کوئی نئی بات نہیں ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر کاشیں گرائی گئیں توتک میں اجتماعی مدفن کی شکل میں خوف و ہراس کی فضاء قائم کرکے نوجوان نسل کو ہر قسم کی شعوری سرگرمیوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، مگر قبضہ گیر ہمیشہ چوک کر جاتا ہے کہ پھول کاٹنے سے بہار کو نہیں روکا جاسکتا۔
خضدار میں خوف و ہراس کے ماحول میں جمود کو توڑنے والا، طلبہ کو جدید علم کے حصول کی خاطر نت نئی راہیں دکھانے والا، انکے دلوں میں علم کی شمع جلانے والا پہلا شخص فضل یعقوب ہی تھا جس نے اندھیری رات میں قلم و کتاب کا دیا تھام کر چہار سو روشنی پھیلانے کا عزم کیا تھا اسے پتا تھا کہ جب تک محکوم علم ء حقیقی سے روشناس نہیں ہوگا تب تک اندھیری رات اجالے کے قلب میں نہیں ڈھل سکتی۔
علم و آگاہی پھیلانے کا یہ کاروان بڑھتا گیا نئی نسل کے سینکڑوں طلباء و طالبات اس نور سے منور ہوتے گئے قابض کی بنیادیں ہلتی گئیں، ڈر کی فضاء چھٹتی رہی اور یہ عمل قبضہ گیر کے لئے ناپسندیدہ تھا اس لئے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں شعور کا درس دینے والوں کو خوف و ہراس کا شکار کیا گیا، کتب میلوں کو سبوتاژ کیا گیا، اکیڈمک سرگرمیوں کے کئے جگہ تنگ کردی گئی خاندان کی جانب سے اور دوسرے مختلف ہتھکنڈوں سے اس علم و شعور پھیلانے والے کارواں کے ساتھیوں کو پریشرائز کیا جاتا رہا لیکن کاروان تھا کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا، روشنی تھی کہ ہر سو پھیلتی جارہی تھی، دشمن اتنا بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا کہ انگلی سے سورج کو چھپا کر اندھیرا کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا۔
فضل اور دوسرے دوستوں کو ہر طرح سے زیر کرنے کی کوشش میں ناکامی دیکھ کر دشمن بوکھلا گیا اور ناکامی چھپانے کے لئے اب فضل یعقوب، شمس بلوچ و دیگر طلبہ کی شکل میں پروانوں کو قید کر رہا ہے وہ بھول چکا ہے کہ پروانے قید کرنے سے ختم نہیں کئے جاسکتے، انگلی آنکھوں کے سامنے رکھنے سے سورج کو چھپایا نہیں جا سکتا، پلکیں جھپکنے سے اندھیرا قائم نہیں کیا جا سکتا کاٹ لو تم جتنے پھول کاٹ سکتے ہو، جتنی کلیاں مسخ کر سکتے ہو کر کو مگر یاد رکھنا تم بہار کو آنے سے نہیں روک سکتے بہار کو آنا ہے وہ آکر ہی رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔