سرفراز بنگلزئی عرف مرید کا بیان انتہائی غیر ذمہدارانہ ہے۔ بی ایل ایف

1933

بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان میجر گہرام بلوچ نے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دلاور ولد واحد بخش کے قتل کو لے کر سرفراز بنگلزئی کا بی ایل ایف کے خلاف بیان انتہائی غیر ذمہدارانہ حرکت ہے معلوم نہیں سرفراز بنگلزئی نادانی میں اپنے ساتھی گلزار امام کی طرح دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے یا پھر فرسٹریشن میں اپنی ناکامی کا ملبہ دانستہ دوسروں پر گرانا چاہتا ہے بی این اے کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد وہ مسلسل بلوچ قومی تحریک آزادی سے جُڑی قوتوں، بالخصوص بی ایل ایف اور ”براس “کے خلاف استعمال ہورہا ہے حقیقت یہ ہے کہ بی این اے اتحادیوں کی سازش سے نہیں اپنے قیادت کی کوتاہ بینی اور بچگانہ حرکتوں کے باعث دو سال کے اندر اندر اپنے انجام کو پہنچا۔سرفراز کے خلاف کسی کو سازش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کیلئے خود کافی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ سرفراز کا بی ایل ایف پر دوسرے تنظیموں کے ساتھیوں کو لالچ دے کر توڑنے کا الزام سراسر غلط اور گمراہ کُن ہے سرمچاروں کے جنگی جذبہ اور ان کے پاس جنگی وسائل کی کمی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان کو وسائل کا لالچ دے کر تنظیموں سے توڑنا سرفراز کا اپنا طریقہ رہا ہے۔ آج جس انور پر الزامات لگاکر سرفراز بنگلزئی بی ایل ایف کے خلاف بیان بازی کر رہا ہے اسی انور کولواہی کو 2018/19 میں سرفراز بنگلزئی نے وسائل کا لالچ دے کر بی ایل ایف سے توڑا اور یو بی اے میں شامل کروایا تھا انور اپنے جن ساتھیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ بی ایل ایف چھوڑ کر سرفراز بگلزئی کے ساتھ شامل ہوئے تھے ان کے پاس بی ایل ایف کی دی ہوئی جو جنگی سہولیات اور سامان تھے بی ایل ایف وہ سہولیات اور سامان واپس لینے کا حق رکھتا تھا لیکن بی ایل ایف نے اپنا وہ حق استعمال نہیں کیا۔ اگر بی ایل ایف کی قیادت تنگ نظر اور بدنیت ہوتی تو اسی وقت ان سے اپنا اسلحہ و دیگر جنگی سہولیات و سامان واپس لیتا مگر بی ایل ایف کی قیادت نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ایسی صورت میں وہ غیر مسلح ہوتے اور دشمن کیلئے آسان ہدف بن جاتے۔

ترجمان نے کہا کہ اسی طرح بزرگ بلوچ رہنما سردار خیر بخش مری کی وفات کے بعد جب سرفراز جیسے بعض نادان افراد نے نام نہاد مڈی کی ملکیت کے نام پر بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان مسلح تصادم اور برادرکشی کا ماحول پیدا کیا تو بی ایل ایف نے کچھ دوسرے بلوچ دوستوں کے ساتھ مل کر دونوں تنظیموں کے درمیان مسلح تصادم کو روکنے کیلئے کوشش کیا حالانکہ اس وقت بی ایل اے سے جُڑے بعض عناصر سوشل میڈیا میں بی ایل ایف کے خلاف بڑے پیمانے پر جھوٹے الزامات اور کردار کشی کا ایک زہریلا مہم چلا رہے تھے بی ایل ایف کی قیادت نے اُن تمام تلخیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دونوں تنظیموں کے درمیان صلح کرانے کی کوششیں جاری رکھا اور بالآخر 2018 میں دونوں تنظیموں کے درمیان خیر کا معاہدہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ گلزار اور سرفراز کی نادانیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی این اے کی تشکیل کو ایک سال نہیں ہوا تھا کہ انہوں نے سرمچاری کے خواہش کا اظہار کرنے والے افراد کے بارے میں تحقیقات اور تسلی بخش معلومات حاصل کرنے کے بجائے عام بھرتی کا ایسا سلسلہ شروع کیا کہ ویسی بھرتی تو لیویز فورس میں بھی نہیں کی جاتی ہے ان کی اسی عام بھرتی کے عمل سے دشمن نے فائدہ اٹھا کر بڑی تعداد میں اپنے ایجنٹ ان کے صفوں میں داخل کیا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ دشمن نے ایک مختصر مدت کے اندر یکے بعد دیگرے بی این اے کے تین کیمپ ڈرون حملوں میں ہدف بنایا جن کے نتیجے میں درجنوں سرمچار شہید ہوئے اور گلزار امام گرفتار ہوا۔

ترجمان نے کہا کہ جہاں تک بی ایل ایف پر قومی تحریک آزادی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے تو سرفراز سے سوال ہے کہ 29 مئی 2015 کو کھڈکوچہ میں مسافر کوچ سے 22 بے گناہ پشتون مسافروں کو یو بی اے کے اس وقت کے کمانڈر سرفراز عرف مُرید نے قتل کرکے قومی تحریک کی کونسی خدمت کیا تھا؟ شاید مرید کی انہی حرکتوں سے تنگ آکر یو بی اے نے اسے نکالا تھا سرفراز بنگزئی اور اس کے قریبی ساتھیوں کو مایوسی سے بچانے کیلئے ”براس “نے انھیں سہارا دیا تاکہ دشمن کے خلاف کوئی بھی بلوچ مورچہ نہ گر پائے۔ مُرید میں تھوڑا بہت سمجھداری اور قائدانہ صلاحیت ہوتا تو گلزار امام کی گرفتاری کے ساتھ ہی بی این اے کا شیرازہ یوں نہیں بکھرتا۔ اب معلوم نہیں کہ بی این اے کا کوئی وجود ہے یا نہیں ہے اگر ہے تو کیا بی این اے وہ افراد ہیں جو بی این اے کے نام پر چھوٹی موٹی کاروائیاں کرتے ہیں یا پھر سرفراز عرف مرید بی این اے ہے جو محض تردیدی بیانات اور تحریک آزادی سے جُڑی ذمہدار تنظمیوں اور افراد پر کیچڑ اُچھالنے کا کام کرتا رہتا ہے؟

انہوں نے مزید کہا کہ ہم بلوچ قوم کے علم میں یہ بات بھی لانا چاہتے ہیں کہ گلزار امام اور سرفراز بنگلزئی کے ساتھ اکثریت ان جنگجوؤں کی تھی جو دوسرے بلوچ مسلح تنظیمیں چھوڑ کر ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے اسلئے جب گلزار گرفتار ہوا تو وہ افراد جو بی این اے بننے سے پہلے گلزار امام کے ساتھ تھے وہ سرفراز بنگلزئی کی اسی منفی رویہ اور قائدانہ صلاحیتوں کی فقدان کے باعث اس کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ نہ تھے اور سرفراز ان کا اعتماد حاصل نہیں کرپایا اسطرح گلزار امام کے ساتھیوں کی اکثریت نے بی ایل اے ( جیئند) میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو سرفراز بنگلزئی نے ان کے اسلحہ جات و دیگر جنگی سامان و سہولیات پر حق ملکیت کا تنازعہ کھڑا کرکے انھیں غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنے لگا حالانکہ ان کے پاس جو اسلحہ اور جنگی سہولیات تھے وہ بی این اے بننے سے پہلے ان کے پاس تھے اس بات پر سرفراز بنگلزئی بی ایل اے کے ساتھ الجھ گیا۔ بی ایل ایف کی قیادت درمیان میں پڑ کر نہ صرف یہ تنازع خوش اسلوبی سے حل کروایا بلکہ سرفراز کی فرسٹریشن اور تنہا ہوتی ہوئی حالت کو دیکھ کر ایک معتبر شخصیت کے ذریعے اسے بی ایل ایف جیسی بڑی قومی پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کی پیشکش کردی مگر سرفراز بنگزئی نے گدان ٹی وی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں نہ صرف بی ایل ایف کے اس مخلصانہ پیشکش کو منفی رنگ میں پیش کیا بلکہ بی ایل اے جیئند پر بھی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک رواں بلوچ قومی تحریک آزادی میں بی ایل ایف کی پالیسی ، کردار اور قیادت کی بات ہے تو ہم یہ بات بلامبالغہ کہتے ہیں کہ آج تحریک آزادی کی مسلح محاذ کے سرگرمیوں میں دو دہائیوں سےتسلسل بی ایل ایف کی وجودکے باعث ہے بی ایل ایف ہمیشہ سے تحریک آزادی سے جُڑے قوتوں کو متحد کرنے، ان کے مابین اشتراک عمل کیلئے سازگار ماحول فروغ دینے اور بدگمانیوں و فاصلوں کو کم و ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔ آخر میں ہم سرفراز بنگلزئی کو مشورہ دیتے ہیں کہ بی ایل ایف فوبیا سے باہر نکلے، بی ایل ایف اور تحریک آزادی کی دوسری قوتوں کے خلاف الزام تراشی کے بجائے اپنا توجہ دشمن کے خلاف پر مرکوز کرے۔