چین نے تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی کے امریکی دورے پر غصے کے اظہار کے بعد پڑوسی ملک کے گرد سمندر میں فوجی مشقوں کا آغاز کیا ہے جس کو ’سخت انتباہ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چین نے فوجی مشقوں کا آغاز سنیچر کو کیا۔
ولیم لائی اگلے سال ہونے والے تائیوان کے صدارتی الیکشن میں اہم امیدوار ہیں۔ وہ پیراگوئے کے دورے پر تھے اور نیو یارک میں رُکے جبکہ واپسی میں سان فرانسسکو کے راستے آئے۔
پیراگوئے دنیا کے اُن چند ملکوں میں شامل ہے جو تائیوان کو سفارتی طور پر ایک الگ ملک تسلیم کرتے ہیں۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے۔
چین نے ولیم لائی کو ’مسائل پیدا کرنے والا‘ قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ’ایسے مضبوط اور زبردست اقدامات کرے گا جس سے قومی خودمختاری کا تحفظ ہوسکے۔‘
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے فوجی ترجمان شی یی کے حوالے سے بتایا کہ پیپلز لبریشن آرمی کی ایسٹرن تھیٹر کمانڈ نے ’تائیوان کے جزیرے کے ارد گرد بحریہ اور فضائیہ کے مشترکہ گشت اور فوجی مشقوں کا آغاز کیا۔‘
ژنہوا کی رپورٹ کے مطابق مشقوں کا مقصد پیپلز لبریشن آرمی کی ’فضائی اور سمندری حدود پر کنٹرول حاصل کرنے‘ اور ’حقیقی جنگی حالات میں‘ لڑنے کی صلاحیت کو جانچنا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان مشقوں کا مقصد ’تائیوان کی آزادی‘ کے لیے سرگرم علیحدگی پسندوں کی غیرملکی عناصر کے ساتھ ملی بھگت اور ان کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں ایک سخت انتباہ دینا ہے۔
چین نے کئی بار کہا ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے اور اس پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
چین اس سے قبل بھی علاقے میں بڑی فوجی مشقیں کر چکا ہے۔ ایک بار یہ مشقیں اُس وقت کی گئیں جب امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی نے گزشتہ سال تائیوان کا دورہ کیا اور بعد میں جب صدر تسائی انگ وین نے امریکہ سے گزرتے ہوئے اعلیٰ امریکی قانون سازوں سے ملاقات کی۔
امریکہ نے تائیوان کے نائب صدر ولیم لائی کے ٹرانزٹ سفر کو معمول کی فلائٹ قرار دیتے ہوئے چین سے پرسکون رہنے کا مطالبہ کیا۔
ادھر تائیوان نے ایک بیان میں چین کی فوجی مشقوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کو غیرمعقول اور اشتعال انگیز رویہ قرار دیا ہے۔