دھول میں اَٹی
تحریر: مھگونگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دھول میں اَٹی بلند و بالا تہذیبوں کی عمارتیں شان و شوکت سے اپنے بے عیب ہونے کے فلک بوس نعرے لگاتی ہیں مگر نوآبادکاروں کی ان مہذب تہذیبوں کو جو دنیا کے انسانوں کو بدتہذیب کہتی ہیں بے پردہ کیا جائے تو اُن کے چہروں کے بدنما داغ، شکستہ دامن اور مفلسی و ناداری سے آنکھیں زرد نظر آتی ہیں، جب اُن کے سامنے سے چراغ ہٹایا جائے تو تاریکی میں بھیانک روپ نظر آتا ہے، سرخ خون اُبلتی آنکھیں اور ان کی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے، اِن تہذیبوں کی پرورش میں انسانوں کے خون کی ندیاں بہائی گئیں مگر پھر جب یہ پھل دینے لگیں تو ان کے بے رس اور کڑوے ذائقے کو چکھ کے نوآبادکار خود تھوکتا ہے کہ کس قدر بدمزہ پودا کاشت کیا۔ اب اصول کے مطابق تو اُسے پچھتاوا ہونا چاہیے لیکن نہیں یہ اپنے کیے پہ شرمندہ نہیں ہوتا اور اپنی تہذیب کے نغمے گاتا ہے مگر وہ نغمے نوحے اور ماتم ہوتے ہیں، آہیں اور سسکیاں ہوتے ہیں اُن لوگوں کا جن کے منہ نوچے گئے مگر اُنہوں نے تہذیبوں کا چہرہ ڈھک دیا۔ نوآبادکار نے اپنی تہذیوں کو رنگین بنایا اور اُن کی عظمت کے بلند و بانگ نعرے لگائے کہ ہماری تہذیبیں جینا سکھاتی ہیں مگر اُن کے لیے کتنوں کو مرنا پڑا، کتنوں کی لاشیں پھلانگ کے اُن کو گلے لگانا پڑا یہ سب پسِ پردہ ہے۔ اِس بات میں حیرت نہیں کہ انسان اُن کے برے اور تاریک پہلو کیوں چھپاتا ہے یہی تہذیبی نرگسیت ہے۔ تہذیبوں کا ساتھ دینا برا نہیں ہے اُنہیں تھامنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، زندہ و جاوید قومیں اپنی تہذیبوں کو زندہ رکھتی ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اُن کو بے عیب سمجھا جائے اُن کا پوری دنیا میں پرچار کیا جائے اور جب ان کا کوئی گندہ حصہ اپنی بدبو پھیلانے لگے اور انسانوں کا جینا دو بھر کرے تو اِتر چھڑکنا اور خون کے سمندر پہ تہذیب کا بے رونق جزیرہ بنانے سے گریز نہ کرنا تہذیبی نرگسیت ہے ۔جہاں تہذیب انسانیت کے بلند و بانگ نعرے لگاتی ہے اِسی طرح تہذیبی نرگسیت میں کی گئی حرکتوں سے حیوانیت بھی شرمندہ ہو جاتی ہے آج دنیا یہ سمجھتی ہے کہ انسان جاگ چکا ہے اب تو نوآبادیاتی نظام کا وجود بھی باقی نہیں ہے تو یہ خام خیالی ہے۔
آج بھی بہت ساری تہذیبیں اپنے بیمار وجود کو گود میں لیے گریہ و زاری کر رہی ہیں جن کو نوآبادکار نے لہولہان کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سرمایہ دار کی باتیں انسانیت سے زرخیز اور حرکتیں ناقابلِ برداشت ہوتی ہے۔ یہ اپنی مادی لالچ کو پورا کرنے کے لیے مختلف خطوں پہ قبضہ کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اُس کے پاس چمکتی ہوئی بےعیب تہذیب ہے۔ جس کے نفاذ کے لیے وہ گھر سے نکلا ہے، اِس کی مثال ایک ایسے مُلا کی ہے جو خود ساختہ دین بنائے اور اُسے در در بیچتا پھرے دنیا اُسے نیک سمجھتی ہے مگر وہ جس گھر کے دروازے پہ دستک دیتا ہو وہ جانتے ہیں کہ یہ دین وبمذہب کا خیر خواہ نہیں بلکہ پیٹ کا پجاری تھا۔
نوآبادکار جب کہیں قبضہ گیر بنتا ہے تو وہاں کی آبادی کو غلام بنانے کے لیے ایک کے بعد دوسرے مرحلے سے گزرتا ہے اور اِس طرح غلاموں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اُن کی قسمت بھی سرخ و سیاہ سے لکھتا ہےجب نوآبادکار اپنی بھیانک تہذیب کے ساتھ کسی خطے میں داخل ہوتا ہے تو سب سے پہلے اپنی تہذیب کے بقا اور اپنے وجود کو خطرے سے نکالنے کے لیے غلاموں کی سرزمین کے لیے تقسیم کرو اور حکومت کرو(divide and rule) کی پالیسی اپناتا ہے اپنی لالچ، حرص اور طمعے کو وہ جدید حکمت عملی کا نام دیتا ہے۔ اِس حیوانی عمل سے وہ ہزاروں سال پرانی سرزمین کے وجود کو چھلنی کرنے اور کسی ریاست کے دامن کو چاک چاک کرنے کے بعد وہ اپنی دوسرے وحشیانہ تدبیر gun and gold پالیسی کے ذدیعے نوآبادکار اپنے قدم مضبوط کرتا ہے کچھ نام نہاد وڈیرے رہنما جو حقیقتاً لٹیرے ہیں چند سِکوں کے عوض اپنی زمین کے ساتھ ضمیر کا سودا کرتے ہیں اور نوآبادکا کا ساتھ دیتے ہیں انہیں مراعات سے نوازا جاتا ہے باقی وہ لوگ جو ضمیر کی عدالت میں خود کو مجرم سمجھتے ہیں وہ ردِعمل کے طور پہ بغاوت کرتے ہیں آہستہ آہستہ انہیں اپنے لوگ بھی شدت پسند کہنا شروع کرتے ہیں مگر وہ غلامی کے بدنما داغ سے نفرت کرتے ہیں اسے اپنے دامن سے کھرچتے اور نوچتے ہیں تاکہ وہ ہٹ جائے۔ غلامی کے وجود کا سایہ بھی ان کے لیے قابلِ برداشت نہیں ہوتا آخرکار وہ نوآبادکار کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں اُن کے لیے زمین سوز حکمتِ عملی اپنائی جاتی ہے جسے نوآبادکار scorched earth policy کہتا ہے یعنی سامراج اپنے دشمن کی زمین ،فصل اور بقا کے تمام مادی وسائل کو جلا کر اسے نشانِ عبرت بناتا ہے۔ اِس کے باوجود بھی کوئی باز نہ آئے تو اس کی آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرایا جاتا ہےاور مارو اور پھینک دو حکمت عملی کے ذریعے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے جیسے جارج آروِل کہتا ہے کہ جو بغاوت کرتا یا ایسا کوئی خیال بھی اُس کے ذہن میں آتا تو وہ انسان بلکل vaporize ہو جاتا تھا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ ایک کے بعد دوسری تدبیر میں سرمایہ دار اگر کامیاب ہوتا جائے تو اُس کے پاس موجود زہریلی تہذیب غلاموں کی تہذیب کو نگلنے لگتی ہے اور پھر غلاموں کا وجود بھی سرمایہ دار کے بنائے ہوئے مصنوعی ڈھانچے میں ضم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اُن کی علیحدہ کوئی شناخت نہیں رہتی اب انسان خون خرابے سے بچنے کے لیے اَمن کے اتنے اونچے نعرے لگاتا ہے کہ وہ خود بہرہ ہونے لگتا ہے جسے غلامی کی زنجیروں کی آواز سنائی نہیں دیتی اگر غلطی سے سنائی دے بھی جائے تو فوراً سے نفسیاتی دفاعی طریقہ کار (defence mechanism) استعمال کرتا ہے اور مُسکرا کے کہتا ہے “کتنا پُر اسرار موسیقی ہے”۔ آہستہ آہستہ آنے والی نسلوں میں ایک خصوصیت کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے وہ اپنے آباواجداد کی طرح بہرے ضرور ہوتے ہیں ساتھ ہی اندھے بھی۔ اپنے بھائی کا بہتا لہو انہیں نظر نہیں آتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے یاداشت زنگ آلود ہونا شروع ہو جاتی ہے تاریخ کے ورق بوسیدہ ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور کوئی غلام پیچھے مڑ کے بھی نہیں دیکھتا کہ اس کا ماضی کیا تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔