حب چوکی : جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرہ

122

بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں و بلوچ نوجوان کی ماوارئے عدالت قتل کے خلاف حب چوکی میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

بلوچ یکجہتی کمیٹی حب کی جانب سے بلوچستان بھر سے بلوچ طلباء و دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی غیر قانونی حراست جبری گمشدگیوں میں اضافے کے خلاف لسبیلہ پریس کلب حب کے سامنے آج ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

حب مظاہرین نے اس موقع پر پریس کلب سے مرکزی بازار اور پھر پریس کلب تک ریلی نکالی جس میں لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء، سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان شریک ہوئے-

مظاہرین نے بلوچستان سے جبری لاپتہ طلباء و دیگر لاپتہ افراد کے تصاویر ہاتھوں میں اُٹھائے ہوئے تھیں، مظاہرین بلوچستان میں فورسز کے ہاتھوں شہریوں کی ماورائے عدالت و قانون جعلی مقابلوں کے روک تھام اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے-

متحدہ عرب امارات سے حراست بعد پاکستان میں جبری گمشدگی کی شکار بلوچ کارکن راشد حسین کی بھتیجی ماہزیب بلوچ نے مظاہرے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا آج ایک دفعہ پھر ہم تصاویر لیکر سڑکوں پر فریاد کررہے ہیں کے ہمارے پیارے ہمیں واپس کردو لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی ہمیں نظر انداز کردیا جائے گا البتہ ہم اپنے پیاروں کو زندانوں کے حوالے کرکے خاموش نہیں بیٹھ سکتے اور اپنی فریاد لیکر مزاحمت جاری رکھینگے-

ماہزیب بلوچ کا کہنا تھا کہ انکے چاچا راشد حسین کو کسی دوسرے ملک سے غیرقانونی طور پر اغواء کرکے پاکستان لایا گیا یہاں دو ممالک نے انسانی حقوق کے دھجیاں اُڑائی اسکے باوجود ہمارا مطالبہ اب بھی یہی ہے کہ اگر ہمارے پیارے واقعی مجرم ہیں تو انھیں عدالتوں میں لائیں جرم ثابت کریں اور پھر سزا دیں ہمیں قبول ہے لیکن ہمارے پیاروں کو سالوں لاپتہ رکھ کر اور انکے اہلخانہ کو ازیت دینا کسی بھی قانون کے تحت انصاف نہیں بلکہ ریاست خود جرم کا مرتکب ہورہی ہے-

مظاہرے میں بی ایس او آزاد کے رہنماء لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیماء بلوچ نے کہا وہ گذشتہ سات سالوں سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے انصاف کے تمام دروازے کھٹکھٹائے لیکن ان سات سالوں میں انھیں انصاف تو ملا نہیں لیکن سڑکوں پر ریاستی پولیس کی تشدد فورسز کی دھمکی اور لوگوں کے باتیں سننے کو ملیں میرے دونوں بچے لاپتہ افراد کے کیمپوں میں بڑے ہورہے ہیں لیکن اس طویل عرصے میں مجھے سننے والا کوئی نہیں-

سیماء کا کہنا تھا ہمارے مائیں اپنے بچے اسلئے جوان نہیں کرتے کہ کسی روز پنجاب سے آنا والا سپاہی انھیں لے جائے اور پھر اسکے بارے سالہ سال کوئی خبر نا ہو ہمارے طویل انتظار کے ساتھ ہمارے درد اور ازیت بھی طویل ہوتے جارہے ہیں اس ملک میں بلوچ کے لئے انصاف کی گنجائش پئیدا کی جائے-

انسان حقوق کے کارکن عبداللہ بلوچ کا اس موقع پر کہنا تھا گذشتہ چند دنوں میں جو خبریں ہماری سامنے آئے ان میں بلوچستان کی ترقی کے نام پر پنجاب میں یونیورسٹیاں بنی اور بلوچستان کے ان علاقوں سے طلباء جبری لاپتہ ہوئے ریاست نے جو بنگلادیش کے ساتھ کیا آج وہی بلوچستان میں دوہرایا جارہا ہے جس کے نتائج بھی بھیانک ہوسکتے ہیں-

حب احتجاجی مظاہرے کے دؤران طلباء کی جانب سے بلوچستان میں طلباء کے خلاف جاری ریاست کریک ڈاؤن میں اضافہ اور بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف چند منٹوں کے لئے ایک ٹیبلو بھی پیش کیا گیا جہاں طلباء نے ہاتھوں میں کتابوں کے ساتھ زنجیریں اور آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی ہوئی تھی-

حب چوکی سے لاپتہ اسلم بلوچ کے والد محمد اسحاق نے سالوں سے لاپتہ بیٹے کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا 8 سالوں سے لاپتہ بیٹے کی فریاد لیکر سڑکوں پر آیا ہوں لیکن مجھے آج تک انصاف نہیں ملاء آخر ہمارا جرم کتنا عظیم ہوسکتا ہے کہ جس میں سالہ سال ہمیں اور ہمارے بچوں کو ازیت میں رکھا جائے یہ بھی نا بتائیں کہ آپ کی اولاد زندہ ہے یا ماردیا گیا-

محمد اسحاق کا کہنا تھا وہ اس دؤران کوئٹہ کراچی سفر کرتے رہے ہیں کمیشن اور عدالتوں میں انکو پیشی پر بلاکر عزت مجروح کی جاتی ہے کہا جاتا ہے آپ لوگ ڈرامے کررہے ہو ہمارے بچوں کی جبری گمشدگی اور ہماری ازیت عدالتوں کے لئے ڈرامے ہیں تو ہم انصاف لینے کس در جائیں ہمیں بتایا جائے کہ اس ملک میں کونسا ادارہ ہے جو انصاف فراہم کرسکتا ہے عدالتیں تو شہریوں کو انصاف فراہمی میں ناکام ہیں-

نیشنل پارٹی کے رہنماء واحد رحیم بلوچ بھی مظاہرین کے ہمراہ تھے جنھوں نے جبری گمشدگی کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہا کہ پہلے پنجاب بلوچ وسائل پر بننے والے تعلیمی ادارے لاہور منتقل کردیتا ہے اور جب ہمارے طلباء علم کے حصول کے لئے مجبور ہوکر پنجاب جاتے ہیں تو انھیں وہاں لاپتہ کردیا جاتا ہے-

ان کا کہنا تھا پاکستان میں سب سے زیادہ آئین کی خلاف ورزی ریاستی ادارے خود کررہے ہیں انھیں احساس ہونا چاہیے اگر بلوچوں کے تعلیمی یافتہ نوجوان نسل کو اس طرح تعلیمی اداروں میں ہراساں کیا گیا نوجوان طلباء لاپتہ ہوئے تو بدلے میں نتائج ریاست کے حق میں بلکل نہیں ہونگے اسلئے اختیار داروں کو سوچنا چاہیے کے وہ اس صورتحال کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں-

احتجاجی مظاہرے کے اختتامی خطاب میں بلوچ یکجہتی کمیٹی حب چوکی کے آرگنائزر عارف بلوچ نے کہا ہمارے آج کے احتجاج کا مقصد بلوچستان میں بھڑتی طلباء جبری گمشدگیوں کے خلاف تھی اس احتجاج میں شہریوں کا شریک ہونا ایک مثبت عمل ہے البتہ ہمارے اظہار کے باوجود چند نام نہاد پارلیمانی قوم پرست پارٹیاں لاپتہ افراد کے احتجاجوں میں شرکت سے کنارہ کش ہیں-

انکا مزید کہنا تھا جبری گمشدگیاں ایک سنگین اور بلوچستان کا انفرادی مسئلہ ہے جس پر ہمیں چاہیے کہ ہمارا تعلق کسی بھی پارٹی کسی بھی مکاتب فکر سے ہو ہم باہر نکل کر اس انسانی حقوق کی پامالی اور بلوچستان میں جاری نا انصافی پر آواز بلند کریں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی حب ہمیشہ ان مظاہروں میں شریک ہوکر لاپتہ افراد کے لواحقین کی آواز بنے گی-