خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی کی یو سی بٹنگی پاشتو میں کیبل کار میں پھنسنے والے تمام 8 افراد کو بحفاظت نکال لیا گیا ہے جن میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔
بٹگرام کی تحصیل الائی میں یہ واقعہ منگل کی صبح اس وقت پیش آیا جب چھ مقامی بچے سکول جانے کے لئے منگل کی صبح کیبل کار میں سوار ہوئے۔ کیبل کار میں ، جسے مقامی افراد ڈولی کہتے ہیں ، دو بالغ افراد بھی سوار تھے۔ لیکن وہ کیبل کار کی تار ٹوٹ جانے سے تقریباً ایک ہزار کی بلندی پر ہوا میں معلق ہو گئے تھے۔
انہیں اس صورتحال سے نکالنے کے لئے پہلا امدادی ہیلی کاپٹر چھ گھنٹوں کے انتطار کے بعد کیبل کار تک پہنچا۔
پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کامیاب امدادی کارروائی کے بعد بچوں کو بحفاظت بچا لینے پر فوج کی امدادی ٹیم اور دیگر کارکنوں کو مبارکباد پیش کی۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والا یہ امدادی آپریشن ٹیلی ویژن سکرینوں پر براہ راست نشر کیا گیا اور اسے لاکھوں افراد نے دفاتر، دکانوں اور ہسپتالوں میں اپنی ٹی وی سکرینز پر دیکھا۔
نگران پاکستانی وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے مبارکبار کے پیغام میں کہا ہے کہ یہ جان کر تسلی ہوئی کہ تمام بچوں کو کامیابی اور حفاظت سے بچا لیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ امدادی کارروائی میں فوج کے کمانڈوز،ائیر فورس پائلٹس اور مقامی حکام کی مدد شامل تھی۔
ایک سینئیر پولیس آفیسر نذیر احمد نے بتایا کہ بچوں کو جب ان کے والدین کے حوالے کیا گیا تو ان میں سے کئی جان بچ جانے پر رو پڑے ۔ ہر شخص ان کی بحفاظت واپسی کے لئے دعا گو تھا۔ مقامی افراد نے امدادی کارروائی میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو گلے لگا لیا۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز کے مطابق کیبل کار میں سوار بعض بچوں کے سیل فون کام کر رہے تھے، اور وہ اپنے اہلخانہ سے رابطے میں تھے۔ کیبل کار میں سوار دو بالغ افراد گیارہ سے پندرہ سال کے بچوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے ۔
پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں ذرائع آمدورفت اور رابطہ سڑکیں اور پل نہ ہونے کی وجہ سے بعض مقامات پر کیبل کار استعمال کی جاتی ہے۔
اس سے قبل حکام نے بتایا تھا کہ10 گھنٹے کی کوششوں کے بعد دو بچوں کو نکال لیا گیا تھا۔
ایڈیشنل کمشنر بٹگرام سید حماد حیدر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آپریشن میں فوجی ہیلی کاپٹرز نے حصہ لیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کیبل کار ایک ہزار سے 1200 فٹ پر موجود ہے۔
اُن کے بقول جیسے ہی ہیلی کاپٹر کیبل کار کے قریب پہنچتے تو وہ تیزی سے ہلنا شروع ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ریسکیو میں تاخیر کا سامنا رہا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ڈولی میں پھنسے افراد کو خوراک، ادویات اور پانی فراہم کیا گیا۔
اندھیرا ہونے پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ریسکیو مشن ختم کر دیا گیا اور کیبل کار میں پھنسے ہوئے افراد کو بحفاظت نکالنے کے لیے دیگر طریقوں پر کام شروع ہوا جس میں مقامی افراد بھی شامل ہو گئے۔
اس سے قبل ڈولی میں پھنسے ایک شخص گلفراز نے خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کو بتایا تھا کہ “شام ڈھل رہی ہے، خدارا ہمیں بچایا جائے۔”
گورنمنٹ ہائی اسکول بٹنگی پشتو کے ہیڈ ماسٹر علی اصغر خان نے بتایا تھا کہ ڈولی میں پھنسے طلبہ اُن کے اسکول میں زیرِ تعلیم ہیں جن کی عمریں 10 سے 13 برس کے درمیان ہیں۔
اُن کے بقول اسکول پہاڑی علاقے میں ہے اور یہاں تک پہنچنے کے لیے چیئر لفٹ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
پہاڑی علاقوں میں ‘ڈولی’ کا استعمال عام کیوں ہے؟
صوبہ خیبر پختونخوا کے دشوار گزار علاقوں جہاں آمدورفت کے ذرائع موجود نہیں ہیں ایسے مقامات پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت چیئر لفٹس لگا رکھی ہیں۔ اس کے ذریعے وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک انتہائی غیر محفوظ سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
سوات میں انتہائی بدامنی کے دور سے پہلے کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق امیر ملا فضل اللہ بھی کئی برس پہلے اس کاروبار سے وابستہ تھے۔
سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی نیاز احمد خان کا کہنا ہے کہ فضا گٹ تا امام ڈھیر تک ملا فضل اللہ ایک طرف سے دس روپے کا معاوضہ وصول کرتے تھے۔
نیاز احمد کے مطابق یوں تو اس قسم کا کاروبار شروع کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ تاہم دور دراز علاقوں میں لوگ اکثر اس کی پرواہ نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے کہ غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے حادثات ہوتے ہیں۔