بلوچ نے مظالم کے خلاف سر جھکا کر غلامی تسلیم نہیں کی۔ بی این ایم

156

بلوچ قوم ان اقوام میں سے ہے جنھوں نے مظالم کے خلاف سرخم نہیں کیا اور غلامی تسلیم نہیں کی ، آج بھی بیرون وطن ہو یا بلوچ گلزمین بلوچ قوم ہر طرح کے مصائب برداشت کر رہی ہے اور اپنی آزادی کی جہد کو آگے بڑھا رہی ہے۔ 11 اگست یوم تجدید عہد کی مناسبت سے بی این ایم مشکے کے زیر اہتمام منعقد کیے گئے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم کے مقامی رہنماؤں نے ان خیالات کا اظہار کیا۔

جلسے سے خطاب کرتے استاد مھران بلوچ نے کہا بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار ملک تھا۔ بلوچوں کے بزرگوں نے اپنا خون بہا کر بلوچستان کا دفاع کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان بیرونی قابضیں کے حملوں کا نشانہ رہا ہے لیکن بلوچ قوم نے بیرونی حملہ آوروں کی غلامی کبھی تسلیم نہیں کی اور اپنی قومی آزادی کی حفاظت کے لیے ہمیشہ مستعد رہے۔

انھوں نے مزید کہا جب دوسری جنگ عظیم کے بعد محکوم اقوام نے انگریزوں کے خلاف ہر طرف سے مزاحمت کی تو وہ اس علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوا۔ انگریز کے انخلا کے بعد 11 اگست 1947 کو بلوچستان کی آزادی بحال ہوئی اور بلوچ ایک مرتبہ پھر اپنی سرزمین کا مالک اور مختار بن گیا۔آزادی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے نئے روایات کے مطابق انتخابات کا انعقاد کیا۔بلوچستان دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھنے کو تیار تھا ۔اس کے دو پارلیمان تھے ، ایوان بالا اور ایوان زیرین۔مگر انگریزوں کو اس خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک چوکیداری کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور پاکستان کے نام سے ایک ملک بنایا۔انگریزوں کے عالمی مفادات کے لیے بلوچستان کی آزادی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ انھوں نے پس پردہ پاکستان کی مدد کی اور بلوچستان کو غلام بنایا۔

ا نھوں نے کہا جب انگریزوں نے بلوچستان کے بادشاہ میر محراب خان کو کہا کہ آپ ہماری اطاعت کریں لیکن محراب خان نے انگریزوں کی غلامی تسلیم نہیں کی اس لیے انگریزوں نے بلوچستان پر فوج کشی کی اور 1839 کو بلوچستان پر طاقت کے زور پر قبضہ کیا۔اس قبضے کے خلاف بلوچوں نے دفاع وطن کا راستہ اختیار کیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ کر انھیں بلوچ گلزمین پر سکون سے رہنے نہیں دیا، انہی حملوں کے نتیجے میں انگریزوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔

انھوں نے کہا بلوچ قوم دنیا میں ان اقوام میں شامل ہے جنھوں نے کبھی غلامی تسلیم نہیں کی۔دنیا کے بڑی طاقتوں ، بشمول اس قوم کے جو اسلام کے نام پر ظاہرا خود کو بلوچ کا دوست پیش کرکے پس پردہ کالے سنگچور سانپ کی طرح بلوچ قوم کو ڈس چکا ہے۔بلوچ لاعلم نہیں ، اچھی طرح جانتا ہے کہ اسے اپنے قومی مفادات ، اپنی آنے والی نسل کی آزادی اور اس کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔

بی این ایم کے سابق سی سی ممبر ڈاکٹر شئے نے خطاب کرتے ہوئے کہا آج ہمارے اس اجتماع میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے گھروں سے ایک ایک شہید ہے، وہ شہید جنھوں نے اپنے قوم کے مستقبل کے بارے میں فکر کیا اور اپنی جان قربان کی۔ان کے نظریات بلند تھے اس لیے آج ہم ان کے پیروکار ہیں۔

انھوں نے مزید کہا 11 اگست وہ دن تھا کہ بلوچ قوم کو انگریزوں کی سو سالہ غلامی سے آزادی ملی۔ظالم اور توسیع پسند اقوام نے ہمیشہ دوسرے اقوام کے استحصال کے لیے ان پر حملے کیے ، انھوں نے بلوچوں پر بھی لشکرکشی کی لیکن بلوچ نے سرقربان کیے لیکن اپنی عزت اور سرزمین سے دست بردار نہیں ہوا۔جیسا کہ ہم نے سنا ہے کہ علی محمد مینگل ، نورا مینگل یا ھمل جیھند اور بلوچ خان ، یہ وہ شخصیات تھے کہ انھوں نے قابضین کے خلاف جنگ۔انگریز سوسال تک بلوچستان پر قابض رہا لیکن آخر میں بلوچ نے اسے اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا اور آزادی حاصل کی ، اس لیے اس دن کی بلوچوں کے لیے بڑی اہمیت ہے۔

انھوں نے کہا یہ بڑی اہم بات ہے کہ ہمارے لوگ جلاوطن ہوئے ، لیکن انھوں نے اپنے مقصد اور نظریات ترک نہیں کیے، اپنی افکار اور شہیدوں کی جدوجہد سے وابستہ ہیں۔تکالیف و مصائب برداشت کر رہے ہیں لیکن اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔یہ ہمارے لیے اہم ہے کہ آج ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں تاکہ تحریک کے بارے میں باتیں سنیں۔یہ بلوچ قوم کی آنے والی نسل ہے۔ سب کو یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ بلوچ اپنی جنگ اس مقام پر لے آئی ہے جہاں منزل آنکھوں کے سامنے ہے، امید طاقتور ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آزادی کی جنگ میں سفر طویل ہو ، پچاس سال ، سو سال گزر جاتے ہیں لیکن یہ جو سلسلہ جاری ہے اپنی منزل پر ضرور پہنچے گا۔