بلوچ قومی مسئلے کا حل کیاہے؟ زمینی اور تاریخی حقائق (حصہ سوئم) ۔ رامین بلوچ

286

بلوچ قومی مسئلے کا حل کیاہے؟ زمینی اور تاریخی حقائق (حصہ سوئم)

تحریر: رامین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اس میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ بلوچ اور پنجابی میں تاریخی تہذیبی نفسیاتی اور نظریاتی حوالہ سے بھی کوئی قدر مشترک نہیں بلوچ قوم نے ہر دور میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی ہے اس کے برعکس پنجابی نے ہر حملہ آور کو خوش آمدید کہاہے اگر ہم تاریخ کو غیر جانبداری کے ساتھ dicoverکریں تو وسطی ہند کے لوگ پنجاب کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں، وہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پنجابی ہندوستان کے تحریک آزادی کوکچلنے کے لئے برطانوی سامراج کے اتحادی تھے۔ برطانوی سامراج نے پنجابیوں کو دنیا بھر میں اپنے پراکسی لڑائیوں میں بطور ایندھن استعمال کیا جیسے امریکہ نے ویت نام کی آزادی کی جنگ کے خلاف سیاہ فاموں اور یورٹوریکوکے شہریوں کو استعمال کیا بالکل اسی طرح پنجابی کرائے کے دستہ کے طور پر ہر خطے کے مظلوم اقوام کے خلاف استعمال ہوئے یہی نہیں امریکہ نے سویت یونین کے خلاف پنجابی ریاست کو بطور پراکسی وار صف بند کئے۔

لیکن اس کے برعکس برطانوی سامراج نے بلوچستان میں فوجی بھرتی مہم کا آغاز کیا اس کے خلاف مری اور کوہ سلیمان کے علاقوں میں برطانوی فوجی بھرتی بورڈ کے خلاف مزاحمت کئے گئے ان کے کیمپس پر حملہ کئے گئے اور ان کے راستے روکے گئے انہیں بلوچستان میں آزادانہ طور پر بھرتی مہم کے لئے کام کرنے نہیں دیا گیا شہید حمید بلوچ کی مزاحمتی کردار تاریخ کے کتبہ پر ایک سنہراباب ہے جس نے عمانی فوج کے بھرتی کیمپ پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا تھا کہ بلوچ کسی مظلوم کے خلاف کسی قابض فوج کی جنگ میں بطور ایندھن استعمال نہیں ہوں گے۔

بلوچ قومی مسئلہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کسی نفسیاتی ہیجان سے پیشتر یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ بلوچ اور پنجابی کے درمیان اس تناؤ اور کشیدگی کی وجہ کیاہے؟ اور بلوچ کیوں لڑرہے ہیں؟کسی بھی زاویہ سے دیکھا جائے تو اس تنازع کی وجہ بلوچ وطن پر پاکستانی ریاستی قبضہ بنتا ہے 4اگست 1947کو بلوچستان کی آزاد و خود مختیار حیثیت کے حوالہ سے ایک معائداتی دستاویزات پرمسٹر جناح اور اور ان کی ٹیم کی دستخط موجود ہے مسٹر جناح جنہیں سوکالڈ بانی پاکستانی کہاجاتاہے وہ ایک پیشہ ور وکیل تھا جسے خان آف قلات احمد یار خان کی جانب سے برطانیہ کے خلاف بلوچ ریاست کی آزاد ی کے مقدمہ کے لئے قانونی وکیل کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ جس نے 11 اگست 1947کو بلوچ ریاست کے اعلان آزادی خیر مقدم بھی کیا تھالیکن اس نے اپنے وعدے قول اقرارکی شروع ہی سے پاسداری نہیں کی وہ ابتداہ ہی دھوکے باز اور بے ایمان نکلے۔

مسٹر محمدعلی بلوچ ریاست کے والئین سے کئے گئے نہ صرف ان تمام معائدات کی خلاف ورزی کی بلکہ مسلمانیت کے نام پر بلوچستان پر قبضہ کا جواز پیدا کرکے فوجی طاقت کے زریعہ قبضہ کی بنیاد رکھی اور دو بلوچ ایوانوں کے فیصلہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے جبری طور پر بلوچستان کو غیر فطری ریاست پاکستان میں شامل کرکے خطے کو ایک طویل خونریزی میں دھکیل دیا حالانکہ کسی بھی سطح پر پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے الحاق کا کوئی جواز سرے سے ہی نہیں بنتا تھا نہ تو بلوچستان برصغیر کا حصہ تھا اور نہ ہی بلوچ قوم کا پنجاب کے ساتھ کوئی جغرافیہ وابستگی تھی۔

پاکستان اس وقت وجود ہی نہیں رکھتاتھا،جب بلوچستان موجود تھا اور بلوچستان کے آزاد و خود مختیارحیثیت کو عثمانی و اومانیسلطنت سے لے کر افغانستان نے بھی تسلیم کرلیا تھا 1940میں جو غیر فطری پاکستانی ریاست کے حوالہ سے قرار دادپیش کیا گیا اس سے بلوچ سیاسی قیادت بھی مکمل طور پر لاتعلق رہے بلوچ قوم کی جانب سے کسی نے تحریک پاکستان نامی بلاء کے ساتھ حصہ نہیں لیا اور نہ بلوچوں نے سیاسی سفارتی یا اخلاقی طور پر پاکستان کی قیام کی حمایت کی یہی نہیں بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کی جانب سے بھی پاکستان کی قیام کی شدید مخالفت کی گئی ہندوستان میں برطانیہ کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے جمیعت علمائے ہند،مجلس احرار،اور ریشمی رومال تحریک کی جملہ قیادت نے دو قومی نظریہ کے نام پر ہندوستان کی تقسیم کو سازش قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

مولانا ابوالکلام آزادجو ہندوستان کی آزادی کا ایک اہم راہنماء تھا انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ”اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر ہندوستان کے تقسیم کے نام پر ہمیں ایک دن میں آزادی دلانے کی بات کریں تو میں اسے مسترد کردوں گا“انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے کی سازش ہورہی ہے، ہندوستان ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کاوطن ہے انہوں ہندو مسلم قومی یکجہتی کو ہندوستان کی آزادی کا اہم ہتھیار قرار دیا۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ آزادی ملنے میں تاخیر سے ہمارا کچھ نقصان ضرور ہوگا لیکن اگر پاکستان بن گیا تو پوری انسانیت کا نقصان ہوگا انہوں نے کھل کر پاکستان کی قیام کی مخالفت کی اور کہاکہ نفرت کے نام پر بننے والا یہ نیا ملک اس وقت تک زندہ رہیگاجب تک یہ نفرت زندہ رہے گی جب تقسیم کی یہ آگ ٹھنڈی ہونے لگے گی تو یہ نیا ملک بھی مختلف ٹکڑوں میں بٹنا شروع کردیگا۔

المیہ یہ ہے کہ خطے کی تاریخ اور بلوچ قومی مسئلے کا زمینی اور تاریخی حقائق کے پیش نظر،حل کی جانب کسی پیش قدمی کے بجائے تاریخی حقائق سے بددیانتی میں پاکستانی وفاقیت کے وکالت کرنے والے وہ لوگ بھی شامل ہے جو بلوچ اور بلوچستان کا نام لے کر سیاست کرتے ہیں اور ان کے بیانیہ اور پارٹی دستور میں لکھاجاتاہے کہ پاکستان ایک کثیر القومی ریاست ہے اور بلوچستان اس کا ایک اکائی یا صوبہ ہے اب اس جھوٹ کو اگر تاریخ کے میزان میں رکھ کر ان سے کہاجائے کہ برصغیر میں بلوچستان کا نقشہ کہاں پر واقع تھا یا بلوچ اور پاکستان کیسے لازم و ملزوم ہے تو ان کے پاس جواب نہیں ہوتا اور وہ کہتے ہیں معروضی حالات آزادی کی جدوجہد کے تقاضہ نہیں کرتے دشمن بہت طاقتور ہے اور جدوجہد آزادی کے لئے یہ وقت مناسب نہیں ہے وہ شدید گھبراہٹ میں کہتے ہیں یہ جذباتی باتوں کا وقت نہیں ہے حالات سازگار نہیں ہے وغیرہ وغیرہ ان سے جتنی بھی زیادہ کھل کی بات کی جائے تو بلوچ قومی آزادی کے حوالہ سے غیر معمولی اور فیصلہ کن موقف پر آمادہ اس لئے نہیں ہوتے کہ وہ قومی مفادات کے بجائے ان کا سوئی شہری مفادات کے گرد گھومتاہے۔

یہی نہیں بلکہ وہ ریاستی گماشتہ کے طور پرعوام میں مایوسی پھیلاکر موقع پرستی اور منافقت کے کیچڑ سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ ان کا نظر ہمیشہ ریاستی گماشتہ اسمبلی الیکشن پر ہوتا ہے و ہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے محدود مطالبات کے حق میں آج تک گماشتہ اسمبلی میں عبوری طور ایک قرار داد تک پاس نہیں ہوتا، لیکن وہ اپنی منافقانہ ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے بار بار الیکشن کے تجربات میں بلوچ عوام کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ بلوچ عوام کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاکر انہیں ووٹ کی شغل میں بندھا جائے وہ ساحل و ساحل پر اختیار کی بات تو کرتے ہیں لیکن صرف اپنا چھوٹا موٹا وصول کرنے کے لئے وہ اس بے پناہ قومی وسائل کے لوٹ مار کے لئے ریاست کا فری لائنسز بن جاتے ہیں کیونکہ کٹھ پتلی انتظامی ڈھانچہ کا حصہ ہونے کے ناطے وہ کسی بھی زاویہ سے بلوچ وسائل کے لوٹ مار کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔

وہ ایم پی ایم این اے یا وزارت لے کر صرف اپنے نوکریاں کرتے ہیں وہ ریاست کو ان ایشوز کے زریعہ بلیک میل کر کے گماشتہ اسمبلی میں اپنی جگہ خالی نہیں چھوڑتے اور دوسری طرف ایک تیر سے دوشکار کی مترادف بلچ عوام کو بے وقوف بناکر ان کی خود ساختہ نمائندگی کا دعوی کرکے ریاست کے گمراکن ہتکھنڈون میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں.

یہ قوم پرست یا قوم دوست جو بھی ہے یہ ریاست کے کمیشن ایجنٹ ہوتے ہیں یہ کوئی مفروضہ یا میری زہنی اختراع نہیں بلکہ ان کا بے نقاب ہوتا کردار ہے جو پانچ دہائیوں سے بلوچ قوم کے ساتھ کرتے آرہے ہیں یہ بلوچ عوام کے جذبات ٹھنڈاکرکے صرف وینٹی لیٹر ہوتے ہوئے ریاستی قبضہ کو بار بار آکسیجن دے کر مفاہمت اور سمجھوتہ بازی کے زریعہ بلوچ قومی غلامی کے خاتمہ کا تاخیر ی اوزار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ان تمام نقطہ ہائے نظر کو سامنے رکھتے ہوئے ریاست کے یہ ان داتابھول جاتے ہیں کہ مصالحانہ سیاست سے قبضہ گیر کھبی بھی غیر مسلح نہیں ہوتایہ ایک ایسی کوشش ہے کہ کسی آدم خور شیر کو ہم گھاس کھانے پر تیار کرلیں یہ ڈھکوسلہ ہے یہ مضحکہ خیز حد تک بھونڈی ہوگی کہ گماشتہ اسمبلی کے فلور پر چند نکات پیش کرکے ہم بلوچ اور بلوچستان کا تحفظ اور دفاع کرسکیں گے بلکہ اس سے ہم اس کے لوٹ مار اور قبضہ کو جواز دے رہے ہیں یہ آدم خور کھبی گھاس نہیں کھائے گا یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بلوچ اور قبضہ گیر کے درمیان اس طرح کے نام نہاد ثالثی کا کردار ادا کرنے سے تاریخ ان گماشتوں قوم پرستوں کو اچھے لفظوں سے یاد نہیں کریگا کہ واقعی یہ بلوچ قوم کے ہیرو تھے کسی ڈکیت کو آپ دوستانہ طریقہ سے بات کرتے ہوئے نہیں منواسکتے جس نے ایک غیر وحشیانہ نظام کی بنیاد رکھی ہے اس سے آپ انصاف کی امید نہیں کرسکتے۔

جس کی بنیاد قبضہ اور لوٹ مار ہے اسے آپ انہیں نکات یا بے معنی قرار دادوں سے نہیں روک سکتے جمہوری سیاست کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کٹھ پتلی اسمبلی کا حصہ بنو بے شک آپ پر امن اور جمہوری بنو لیکن بلوچ قومی محاذ کا حصہ بنو اپنے وسائل اور اپنی آزادی کو ریاست سے ملنے والی دوٹکے کے فائدہ کے لئے گروی نہیں رکھو آپ کی پست قدمی آپ کا یہ سمجھوتہ بازی قبضہ گیر کو کمزور کرنے کے بجائے اور بھی گستاخ کرنے کا سبب بنے گا ایک رومن کہاوت ہے کہ”گر آپ امن چاہتے ہو جنگ کی تیاری کرو“تو پھر آپ کوکسی جواز عذر یا بہانہ کا کوئی موقع نہیں ملے گا کہ فلاں حکومت نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہمارے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انحراف کئے یا ہمارے ساتھ کسی نے وعدہ وفاء نہیں کیا گماشتہ پارلیمنٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے بلوچ عوام کو آزادی کے حوالہ سے ایک واضع پروگرام کے ساتھ منظم کرو ریاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے سے وہ پیچھے نہیں ہٹے گا، غیر مسلح یا کمزورنہیں ہوگا وہ انصاف کا چیمپئن نہیں بنے گا بلکہ اس کے اعتماد جارحیت اور وحشیت میں مزید اضافہ ہوگا ۔

امپریلزم کی یہ فطرت ہے کہ جب وہ کسی قوم کو نوآبادی بناتاہے اس کی ملک پر قبضہ کرتاہے تو وہاں فوجی معاشی اور سیاسی کنٹرول حاصل
کرنے کی کوشش کرتاہے اور مقبوضہ ملک کی وسائل کو لوٹنے کے لئے انسانیت جمہوریت ترقی و خوشحالی کا نعرہ لگاکر مقامی آبادی کی ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کرتاہے کیونکہ جب تک مقامی آبادی کو برین واش نہیں کیا جاتا اسے فریب اور دھوکہ نہیں دیا جاتا تب تک محض فوجی طاقت اور ڈنڈے سے وہ مقبوضہ علاقہ کے عوام کا سوچ نفسیات احساس اور رویہ نہیں جیت سکتا وہ قومی و عوامی شعورکو زائل کرنے اور انہیں متذبذب کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتاہے اور یہی صورتحال بلوچستان اور بلوچ عوام کاہے قبضہ کے دن سے اب تک پاکستانی ریاست ہچکولے کھاتی اپنی علمداری کے لئے مختلف پارٹیوں کو استعما ل کرتے ہوئے بلوچ قومی آزادی کے مطالبہ کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔

تحریک آزادی کی رفتار میں جب تیزی آتی ہے تو کھبی مذاکرات کے نام پر اسے زائل کرنے کوشش کرتاہے کھبی معافی دینے کی بات کرتاہے ہے کھبی کہتے ہیں کہ یہ ناراض لوگ ہے انہیں منانے کے لئے ان سے بات چیت کا راستہ اپنائیں گے کھبی کہتے ہیں کہ ان کے احساس محرومی ختم کریں گے کھبی یہ بھی کہاجاتاہے کہ سابقہ حکومتوں نے ان کے ساتھ زیادتیاں کی ہے جب کھبی ریاست کو اپنی قبضہ اور عملداری میں کوئی شگاف محسوس ہوتاہے تو وہ وہاں کے سیاسی پارٹیوں سے خدمات لے کر اس بحران سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتاہے اور بار بار ترقی و پسماندگی کا شوشہ چھوڑکر بلوچ قوم کو آزادی کی بنیادی مطالبہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتارہتاہے۔

( جاری ہے)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔