بلوچ طلباء رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ تربت میں ریاستی ملاؤں کا مذہب کے نام پر ایک بلوچ نوجوان کا قتل بلوچ سیکولر سماج کے لیے ایک نئی پیچیدگی کا آغاز ہے لیکن ریاست کی “مذہبی ڈسکورس” نئی نہیں ہے بلکہ گذشتہ کئی سالوں سے بلوچ سیاسی شعور کو ختم کرنے کے لیے ریاست “مُلا ڈیتھ اسکواڈ” کے ذریعے اس ڈسکورس کو پروان چڑھا رہا ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے مزید کہا کہ ڈیتھ اسکواڈ کے اسی گروپ نے آواران کے ایک ذگر خانے پر حملہ کیا، جھاؤ، مشکے، کولواہ، گورکوپ، بالگتر اور گرد و نواح کے متعدد علاقوں میں ریاست نے اسی مذہبی ڈسکورس کے بنیاد پر متعدد سیاسی خاندان و عام بلوچوں پر مسلح حملے کیے اور ذگری و نمازی کے نام پر بلوچ سماج میں ایک تضاد کو ابھارنے کی کوشش کی گئی اور تربت میں ہونے والا واقعہ اسی ریاستی “مذہبی ڈسکورس” کا تسلسل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اسی “مذہبی ڈسکورس” کے بنیاد پر نہ صرف مکران بلکہ پورے بلوچستان میں پنجاب سے آئے ہوئے تبلیغیوں کو پھیلا رہا ہے اور یہ پنجاب سے آئے ہوئے ملا-ملٹری گروپ انتہائی تیزی سے پورے بلوچستان میں مدرسوں کا جال بچارہے ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ اس نئے کالونیل حکمت عملی کو سمجھنا انتہائی ضروری اور اس کی پوری تدارک کے لیے بلوچ سیاسی قوتوں کو مزاحمتی سیاست کے ذریعے بلوچ عوام کو میدان میں لانا ہوگا۔ بحیثیت بلوچ سیاسی کارکن اگر ہم نے ریاست کی اس “مذہبی ڈسکورس” کو سمجھنے میں دیر کردی یا اسے پنپنے کا موقع دیا گیا تو یہ بلوچ سیاسی شعور پر حملہ آور ہوگا۔