بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

175

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں طویل بھوک ہڑتالی کیمپ کو آج 5136 دن مکمل ہوگئے ہیں، بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکریٹری ماما عظیم بلوچ، سیکریٹری اطلاعات بالاچ قادر صمند بلوچ و دیگر ساتھیوں نے کیمپ آکر لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی-

کیمپ آئے وفد سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہوکر کہا کہ بلوچ سماجی ذہنی غلامی کی جڑوں کو گہرا اور مظبوط نہیں ہونے دیا ایسی صورت میں ریاستی کردار اپنی تضاداتی بنیادوں کی عین مطابق ریاست کی اس تعریف پر پورا اترتا ہوا نظر آیا جس میں وہ بالادست قوم یا طبقے کے مفادات کی چوکیداری اور اس کے ہاتھ میں پرامن جدجہد کو جبر سے دبائے رکھنے کا طاقتور اوزار کے طور پر دیکھی جاتی ہے ایسی ریاست اپنے نوآبادیاتی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لئے سفاکیت درندگی کی ہر حد پار کر سکتی ہے-

ماما قدیر بلوچ نے کہا بلوچستان میں تسلط برقرار رکھنے اپنی عدم دلیل کے باعث پاکستانی حکمران دہشت پھیلانے والی ریاستی پالیسی پرگامزن ہیں جس کا مظاہرہ برائے راست فوجی کاروائیوں کے علاوہ روزانہ بلوچ سیاسی کارکنوں طلباء، نوجوانوں، ڈاکٹروں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت بلوچ سماج کے مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاستی جبر کے دؤران کے ذریعے اٹھائے جانے میں دیکھا جاسکتا ہے اور انہیں ریاستی تحویل میں سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کیا جارہا ہے جبکہ ان بلوچ شہدا کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی جا رہی ہیں-

انہوں نے کہا اب تک ہزاروں جبری لاپتہ بلوچوں کی لاشیں ملی ہیں جبکہ ہزاروں افراد کو جبری لاپتہ کردیا گیا ہے سینکڑوں افراد جن میں خواتین بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں فورسز کی کاروائیں کا نشانہ بھی بن چکے ہیں اس طرح حالیہ سالوں میں ریاستی جبر کے ذریعے ہزاروں بلوچ شہید کئے جاچکے ہیں-

ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا ریاست کے ہاتوں جبری گمشدگیوں اور شہادتوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب بلوچ جبری لاپتہ کی بازیابی جب تک بلوچ اپنی منزل نہ پالے یا وہ غلامی محکومی کو دل سے تسلیم نہ کرے تاہم پرامن جدجہد کی موجودہ شدت اور بلوچ قوم میں پائے جانے والے قربانی کے عزم حوصلہ کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ قوم نوآبادیاتی ریاست کے مقتل سے گزر کر اپنی حقیقی نجات فرزندوں بازیابی کی صورت میں حاصل کرے گی-