بلوچستان بھر سے طالبعلموں کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ بی ایس او

124

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے حالیہ دنوں بلوچستان اور ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ طالبعلموں کی جبری گمشدگی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں درجنوں بلوچ طلباء و نوجوانوں کو ماورائے آئین گرفتار کر کے لاپتہ کردیا گیا ہے جبکہ لواحقین کی جانب سے قانونی راستے اختیار کرنے پر بھی انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ ماورائے آئین و قانون شہریوں کو اٹھانا انسانی حقوق و بین الاقوامی اصولوں کی سراسر خلاف ورزی کے بعد جب لواحقین ابتدائی رپورٹ درج کرنے کیلئے تھانوں و عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو انھیں وہاں پر مزید حراساں کرکے ازیت میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ رواں ماہ کوئٹہ، خضدار اور تُربَت سمیت بلوچستان بھر سے درجنوں بلوچ طالبعلموں کو لاپتہ کردیا گیا جسکے بعد طالبعلموں میں مذید بے چینی اور خوف کی لہر نے جنم لی ہے۔

ترجمان نے کہا ہے کہ کسی قانون و آئین کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں مظالم کی تاریخ رقم ہو رہی ہے جبکہ دوسری جانب ریاستی مشینری ان مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں تمام لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اس مسئلے کی وجہ سے پہلے ایک انسانی بحران نے جنم لیا ہے اور اس میں کمی لانے کے بجائے تواتر کے ساتھ اضافہ تشویش ناک ہے۔

ترجمان بی ایس او نے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے 16 اگست کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف منعقد ہونے والی احتجاج کی بھرپور حمایت کی ہے۔