بلوچ یکجہتی کمیٹی اسلام آباد نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان بھر میں ریاستی جرائم کا بازار گرم ہے۔ آئے روز بلوچ طلبہ، سیاسی کارکنان اور دیگر افراد کو جبراً لاپتہ کیا جا رہا ہے، ریاستی شر سے بچے، بوڑھے اور خواتین کوئی بھی شخص محفوظ نہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ریاستی فورسز کی جانب سے بلوچ عوام کے اغوا کے واقعات میں اضافہ بلوچ نسل کشی کی واضح پالیسی ہے۔ بلوچستان ریاستی دہشت گردی کی زد میں ہے، جہاں ہر دن فوجی آپریشن، دیتھ اسکواڈز کا متحرک رہنا، ریاستی سرپرستی میں مذہبی شدت پسندی، اور دیگر ذرائع سے بلوچوں پر جبر و تشد دمعمول بن چکا ہے۔
“پاکستانی فورسز بلوچ عوام پر تشدد اور ناجائز جبر کے ذریعے اپنا دبدبہ قائم رکھنا چاہتی ہے۔ بلوچ قومی شناخت کے بنیاد پر بلوچ نسل کشی کی جا رہی ہے، جہاں ڈیرہ غازی خان سے لیکر گوادر تک بلوچ قوم پاکستانی فورسز کے غیر انسانی سلوک کی زد میں ہے۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں بدستور جاری ہے جہاں کوئٹہ، خضدار، کیچ، پنجگور، آواران، تمپ، اور نوشکی سمیت کراچی میں بلوچ عوام کو جبراً لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ سے یحییٰ بلوچ اور کمبر بلوچ کو لاپتہ کیا گیا۔ اسی طرح خضدار کے علاقے مولہ سے کامران ولد سومرو خان اور سعید بلوچ، نوشکی سے عاطف ولد ماسٹر عادل، گوادر میں آپریشن کے دوران پانچ خواتین سمیت درجنوں افراد کو جبراً لاپتہ و گرفتار کیا گیا، کیچ کے علاقے تمپ سے عارف ولد پنڈوک، شاہ زیب ولد رحمدل، بہادر ولد جان محمد، قادر بخش ولد عزیز، مراد ولد عبدل کریم، تربت سے نوشاد بلوچ، شیر جان بلوچ، اور ظریف کو لاپتہ کیا گیا، اور پنجگور سے فقیر جان ولد خدا دوست اور اشرف ولد حاجی اسماعیل، اور کراچی سے داد شاہ شاشانی کو ریاستی فورسز کی جانب سے لاپتہ کیا گیا۔ مجموعی طور پر گزشتہ تین ہفتوں کے دوران بلوچستان بھر سے 50 کے قریب افراد کو جبراً لاپتہ کیا گیا۔
مزید کہا گیا ہے کہ فوجی آپریشن، چھاپے، بلوچ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ پر تشدد واضح ریاستی دہشت گردی ہے۔ ریاست کی جبری گمشدگیوں پر مبنی پالیسی بلوچ قوم کے اندر عدم تحفظ جنم دے رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر بلوچ قوم کے باشعور افراد کو سمجھنا چاہیے کہ بلوچستان میں اس وقت ریاست جن پالیسیوں پر کارفرما ہے اگر ان کا مقابلہ نہیں کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب بلوچستان کو ریاست ان کے لوگوں کیلئے رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گا۔ ایک طرف ریاستی جبر عروج پر ہے وہیں دوسری جانب عالمی طاقتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اندھی ہو چکی ہیں جبکہ ریاست نے بلوچستان میں اپنی دہشت گردی جاری رکھا ہے، ایسے مظالم کے خلاف مزاحمت کرنا بلوچ عوام پر ہے۔
بیان میں کہا گیا کہبلوچ قوم کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ریاست کی فطرت میں شامل ہے کہ جب تک عوام نکل کر اسے ان سنگین جرائم کو روکنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالے گی یہ عمل جاری و ساری رہیں گے، بلوچوں کے خلاف جاری نسل کشی کو تمام اداروں کی کسی نہ کسی صورت میں حمایت حاصل ہے اور مین اسٹریم تمام جماعتیں اس سنگین جرائم پر خاموش رہ کر اپنی حمایت کا برملا اعلان کر رہے ہیں۔ ان غیرانسانی عمل کو روکنے کیلئے بلوچوں کو سیاسی مزاحمت کی طرف بڑھنا چاہئے اور یکجا ہو کر ریاستی دہشت گردی کے خلاف جد وجہد کرنا چاہیے تاکہ اس نوآبادیاتی نظام اور جبر کا خاتمہ ہو۔