ایمان زینب مزاری حراست بعد نامعلوم مقام پر منتقل

764

ابھی ابھی خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ ہمارے (گھر کے) مرکزی دروازے کو توڑ کر اندر آئے اور میری بیٹی (ایمان مزاری) کو ساتھ لے گئے۔ یہ پیغام شیرین مزاری نے صبح چار بجے کے قریب سماجی رابطوں کی سائٹ پر لکھا۔

انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کو پولیس و سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے ان کے کمرے کے دروازے کو توڑا جاچکا ہے جبکہ کمرے میں چیزیں بکھرے پڑے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے اس حوالے سے کہا کہ اتوار کو علی الصبح ان کی بیٹی ایڈووکیٹ ایمان مزاری کو اسلام آباد میں واقع ان کے گھر سے خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد ساتھ لے گئے۔

سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر صبح چار بجے کے قریب اپنے پیغام میں شیریں مزاری نے لکھا: ’ابھی ابھی خواتین پولیس اہلکار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ ہمارے (گھر کے) مرکزی دروازے کو توڑ کر اندر آئے اور میری بیٹی کو ساتھ لے گئے۔ ہمارے سکیورٹی کیمرے اور ایمان کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون چھین لیا۔‘

شیریں مزاری کے مطابق ہم نے پوچھا کہ وہ کس لیے آئے ہیں اور وہ ایمان کو گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ وہ پورے گھر میں گھومتے رہے۔ میری بیٹی اپنے رات کے کپڑوں میں تھی، انہوں نے کہا کہ مجھے لباس تبدیل کرنے دو لیکن وہ انہیں گھسیٹ کر لے گئے۔‘

سابق وفاقی وزیر نے بتایا کہ انہیں کوئی وارنٹ نہیں دکھایا گیا اور نہ کوئی قانونی طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ شیریں مزاری نے اسے ’ریاستی فاشزم‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم گھر میں صرف دو خواتین رہتی ہیں۔ اس طرح ایک اغوا ہے۔‘

ایمان مزاری نے بھی اتوار کو صبح تین بجکر 20 منٹ پر اپنے گھر میں نامعلوم افراد کے داخلے اور سکیورٹی کیمرے توڑے جانے کے حوالے سے ٹویٹ کی تھی۔

ایکس پر ‘ریلیز ایمان مزاری‘ کا ٹرینڈ بھی ٹاپ پر ہے، جس میں ایمان مزاری اور علی وزیر کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی ایمان مزاری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

دریں اثناء اسلام آباد پولیس نے آفیشل ایکس اکاؤنٹ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں علی وزیر اور ایمان مزاری کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’دونوں ملزمان اسلام آباد پولیس کو تفتیش کے لیے مطلوب تھے۔ تمام کارروائی قانون کے مطابق عمل میں لائی جائے گی۔‘

اس سے قبل اسلام آباد پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار مونا خان کو بتایا کہ علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف تھانہ ترنول میں ہفتے کی شب ایف آئی آر درج ہوئی، جس کے باعث انہیں حراست میں لیا گیا۔

پولیس افسر کے مطابق علی وزیر اور ایمان مزاری کے خلاف 18 اگست کو این او سی کی خلاف ورزی، بغیر اجازت جلسے اور سڑکوں کی بندش پر یہ ایف آئی آر درج ہوئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ آج ہی دونوں کو مقامی عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریماند لیا جائے گا۔

18 اگست کو پی ٹی ایم نے اسلام آباد کے نواحی علاقے ترنول میں ایک جلسہ کیا تھا۔ اس سے قبل یہ جلسہ سپریم کورٹ کے باہر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، تاہم بعدازاں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا تھا کہ کامیاب مذاکرات کے بعد پی ٹی ایم قیادت نے اسلام آباد جلسہ گاہ کی جگہ سپریم کورٹ سے تبدیل کر کے ترنول کرنے پر اتفاق کیا۔