گزشتہ چھ دہائیوں سے بھی زیادہ وقت میں پہلی بار ہالی وڈ کے ڈیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ رائٹرز اور اداکار ایک ساتھ ہڑتال پر چلے گئے ہیں۔ تقریبا 63 برسوں کے عرصے میں فلم انڈسٹری کی یہ سب سے بڑی ہڑتال ہے، جس میں اسکرین رائٹرز کی طرف سے کی گئی ہڑتال کی اپیل میں ‘امریکی فیڈریشن آف ٹیلیوژن اور ریڈیو آرٹسٹ’ (اے ایف ٹی آر اے) کے فنکاروں نے بھی شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
تقریباً 160,000 فنکاروں کی نمائندگی کرنے والی یونین ‘اسکرین ایکٹرز گلڈ’ اور اے ایف ٹی آر اے نے ‘الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلیویژن پروڈیوسرز’ کے ساتھ اجرت سے متعلق نئے معاہدے پر پہنچنے میں ناکامی کے بعد جمعرات کے روز سے ہڑتال کا اعلان کیا۔
اس حوالے سے یونین اور ٹیلی وژن اسٹوڈیوز کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے بات چیت کئی روز سے جاری تھی، جس کی آخری تاریخ بدھ کو ہی گزر گئی تھی۔ اس کے بعد یونین کی قیادت نے کام روک دینے کے حق میں ووٹ کیا۔
اسکرین ایکٹرز گلڈ اور امریکن فیڈریشن آف ٹیلیویژن اینڈ ریڈیو آرٹسٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈنکن کریبٹری آئرلینڈ نے بات چیت کی ناکامی کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ”ہڑتال اب اس کا ایک آخری ذریعہ ہے۔”
اسکرین ایکٹرز گلڈ (ایس اے جی) نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”چار ہفتوں سے زیادہ بات چیت کے بعد بھی، الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلیویژن پروڈیوسرز، یونین کے ارکان کے ضروری مسائل پر منصفانہ حل پیش کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ جمعرات کی نصف شب سے ہڑتال شروع کرنے کا متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا۔
ہڑتال کے اعلان کے فوراً بعد اسکرین رائٹرز کا ایک گروپ ہالی ووڈ میں نیٹ فلکس کے دفتر کے باہر جمع ہوا اور نعرہ لگانا شروع کیا کہ، ”اپنے اداکاروں کو اجرت کی ادائیگی کریں!”
لکھاریوں کی ہڑتال میں اداکار بھی شامل
کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ تقریبا ًچھ دہائیوں کے دوران ہالی وڈ کی یہ ایسی پہلی صنعتی ہڑتال ہے، جس کی وجہ سے فلم اور ٹیلی وژن کے پروڈکشن کا کام تقریبا ًپوری طرح سے ٹھپ ہو گیا ہے۔
رواں برس مئی میں 11,000 سے زیادہ فلم اور ٹیلیوژن کے اسکرین رائٹرز نے ہڑتال کی تھی، جس کی وجہ سے بڑے بجٹ کی فلموں کی تیاری میں کافی خلل پڑا۔
اداکار اور رائٹرز اس ہڑتال کو کافی سنجیدگی سے لیتے ہوئے دکھائی دے رہے کیونکہ یونین کی طرف سے جیسے ہی باضابطہ ہڑتال کا اعلان کیا گیا، ”اوپن ہائیمر” نامی فلم کے ستارے لندن میں ہونے والے پریمیئر سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔
ہڑتال کے فیصلے پر نکتہ چینی
ہالی وڈ اسٹوڈیوز کی نمائندگی کرنے والے گروپ ‘الائنس آف موشن پکچر اینڈ ٹیلیویژن پروڈیوسرز (اے ایم پی ٹی پی) نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔
اس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہڑتال یقینی طور پر وہ نتیجہ نہیں ہے جس کی ہمیں توقع تھی، کیونکہ اسٹوڈیوز ان اداکاروں کے بغیر نہیں چل سکتے جو ہمارے ٹی وی شوز اور فلموں کو زندہ رکھتے ہیں۔”
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”افسوس کے ساتھ یونین نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا، جو صنعت پر انحصار کرنے والے ہزاروں لوگوں کے لیے مالی مشکلات کا باعث بنے گا۔”
اس نے مزید کہا، ”یہ یونین کا انتخاب ہے، ہمارا نہیں۔ ایسا کر کے اس نے ہماری تنخواہ اور بقایا جات میں اضافے، پنشن اور صحت سے متعلق رقم کی فراہمی کے لیے بہتر قیمت، آڈیشن کے تحفظات، مختصر سیریز کے آپشن پیریڈز کے لیے ایسی تاریخی تجاویز پیش کی گئیں کہ جو اداکاروں
کو مصنوعی ذہانت سے متعلق ڈیجیٹل مماثلتوں سے تحفظ بھی فراہم کرتی ہیں، کو مسترد کر دیا ہے۔”
جنیفر لارنس اور میریل اسٹریپ سمیت ہالی وڈ کے اہم ستاروں نے اس ہڑتال پر اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
مطالبات کیا ہیں؟
اسکرین رائٹرز گلڈ اور امریکی فیڈریشن آف ٹیلیویژن اور ریڈیو آرٹسٹ (اے ایف ٹی آر اے) یونین اسٹریمنگ سروسز سے زیادہ معاوضے کے ساتھ ہی افراط زر کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ اجرت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
کام کرنے پر ملنے والی تنخواہوں کے علاوہ اداکار، اپنی فلم یا پروگرام سے اس وقت بھی اضافی پیسہ کماتے ہیں، جب ان کا کام کسی بھی نیٹ ورک یا کیبل پر نشر ہوتا ہے۔
تاہم نیٹ فلکس اور ڈزنی پلس جیسی اسٹریمنگ سروسز دیکھنے سے متعلق اعداد و شمار کو ظاہر نہیں کرتی ہیں اور ناظرین کی تعداد سے قطع نظر اداکاروں کو بس ایک مقررہ شرح سے ہی پیسے ادا کر دیے جاتے ہیں۔
ایس اے جی اور اے ایف ٹی آر اے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے استعمال کے تعلق سے حفاظتی اقدامات کے نفاذ کا بھی مطالبہ کر رہی ہیں۔ اداکار اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ ان کی ڈیجیٹل تصاویر ان کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کی جانی چاہیں۔