وڈھ تنازعہ میں یقیناً کچھ لوگوں اور اداروں کے مفادات ہیں۔ لشکری رئیسانی

358

سیاسی رہنماء سابق سینیٹر حاجی لشکری رئیسانی نے کہا ہے کہ وڈھ میں جاری تنازعہ سے بہت سے نقصان کا خدشہ ہے کسی بھی مسئلے میں دو یا تین آراء ہوتی ہیں، یقیناً جو واقعہ پیش آیا ہے اس میں کچھ لوگوں کے مفادات ہیں، کچھ طبقات کے اور کچھ اداروں کے ہوں گے مگر ہم نے کسی کی ذاتی رائے کو نہیں دیکھنا بلکہ سب نے اجتماعی قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

یہ بات انہوں نے خضدار میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک قومی نظم ہوا کرتا تھا جس کو خود غرض لوگوں اور اداروں نے بدنظمی کا شکار کیا اور وہ قومی نظم ہمارا ٹوٹ گیا۔ اب بھی تھوڑی بہت قومی روایتیں ہیں اور نظم ہیں ان کی جو لوگ رضا کارانہ پابندی کرتے ہیں وہ اس قوم کے ساتھ اچھائی کررہے ہیں۔ میرے اور نواب اسلم رئیسانی کے فرائض منصبی ہمیں پابند کرتے ہیں کہ ہم اپنا کردار ادا کریں۔ ایسے تنازعات میں کہ جس میں کسی خاندان کو، کسی قبیلے کو یا کسی قوم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہم نے دونوں فریقین سے بات کی اور ہم کوشش یہ کر رہے ہیں کہ ایک مستقل جنگ بندی ہو اور اسی طریقے سے یہاں کے جو غیرجانبدار معززین ہیں، علماء ہیں، یا ایسے خیر خواہ سیاسی لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ صوبہ جس نقصان اور بحران سے گزر رہا ہے اس کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تو ان کے ذریعے ہم کوشش کریں گے کہ ہم کوئی مستقل حل تلاش کریں۔

“کل ہم دونوں فریقین سے ملے، آج ہم نے خضدار میں قیام کیا اور آج دوبارہ کل کی جو پیش رفت ہوئی ہے اس پر عملدرآمد کی کوشش کریں گے۔ ہم ایک بہت بڑے قومی بحران سے گزر رہے ہیں، یہاں پر قومی روایتیں پامال ہوگئی ہیں، کچھ لوگوں کے اشاروں پر قومی نظم ٹوٹ گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم حاصل کرنے والے صرف نوکری کے حصول کے لیے تعلیم حاصل کررہے ہیں اور قومی خدمات کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ ہم نوجوانوں سے یہی اپیل کرتے ہیں کہ علم کے ذریعے اپنے قومی وقار کو بلند کریں، جس بحران سے ہم گزر رہے ہیں اس بحران سے نکل جائیں۔ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں کہ اس فساد اور بحران کو ختم کریں تاکہ لوگ جس طرح سے متاثر ہورہے ہیں وڈھ سمیت اردگرد کے لوگ اس سے محفوظ رہیں، جس کی وجہ سے ہائی وے بند ہورہے ہیں اور کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں اس کے اثرات ہیں۔ ہم ان شاءاللہ نیک نیتی سے اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے اور اس مسئلے کا ایک باضابطہ حل نکال کر لوگوں کے سامنے رکھیں گے۔ میں اہل قلم سے یہی توقع رکھتا ہوں کہ انفرادی رائے کو چھوڑ کر اجتماعی رائے کو ترجیح دینے میں اپنا کردار ادا کریں گے تاکہ صوبے میں روایات کو برقرار رکھ کر امن قائم کرنے میں کردار ادا کرسکیں۔