نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( ساتواں حصہ)
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نواب نوروز کے عمل و کردار اور جہد مسلسل کو دیکھ کر ایک بات واضح ہوجاتا ہے کہ بلوچ کی جدوجہد انتہائی طویل ہے جو تین سو سالوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے اٹھارہ سو انتالیس سے لےکر دو ہزار تیئیس تک اس میں مختلف اوقات میں وقفہ ضرور آتا رہا ہے نسلیں ضرور بدلی ہیں پر جہد کبھی نہیں رکا ہے۔
میں سمجھتا ہوں نواب نوروز اور شہداء بلوچستان کے قبروں کی تختیوں پر جو کچھ لکھا ہے اگر ان کی تحریک پر، زندگیوں پر اور جدوجہد پر اگر کوئی تحقیق کرنا چاہیے یا دوسری طرف کوئی ان کے جہد سے انکار کرے اور ان کا جہد کے حوالے سے غلط موقف پیش کرے تب بھی وہ چند سادہ سطور ان کی جدوجہد ، عمل و کردار کے بارے بتانے کے لیے کافی ہیں۔ باقی رہی بات بی ایس او کی تو اس خیال میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی ایس او بلوچ طلباء کی ایک عظیم سیاسی اور تربیتی درسگاہ رہی ہے ہم جیسوں کے لئے یہ ادارہ مادر علمی، مادر سیاسی اور مادر سماجی ہے اس لیے میں اسے اپنا پہلا پیار کہتا ہوں، یہاں میں بی ایس او کی تاریخ پر نہیں جاؤں گا کہ آج یہ ادارہ وینٹیلیشن پر ہے اور آکسیجن کے ذریعے یا مصنوعی طور پر اسے زندہ رکھا گیا ہے مگر وہ آکسیجن بھی اب کاربنڈائی آکساہیڈ مکس کر چکا ہے اس کا چیئرمین ایسا شخص بھی بن سکتا ہے جو کسی پارلیمانی پارٹی کا ممبر ہو اس پارٹی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑے پھر بی ایس او کا چیئرمین بنے مگر ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا ہے ملازم بھی اس کے سربراہ رہے ہیں ستم ظریفی دیکھیں اب تو سیاسی رشوت کے طور پر اس کا چیئرمین شپ بیچا جاتا ہے درد یہ بھی ہے کہ اب اس کے کابینہ کے لئے سلیکٹ الیکٹ نہیں سلیکٹ جو ہمیشہ سے ہو رہا ہے کے لئے عہدیدار کے لئے گارنٹی دینی پڑتی ہے اس کا گارنٹر لیا جاتا ہے ان سب کی شناختی کارڈ مخصوص جگہوں پر منظوری کے لئے بیجا جاتاہے اجازت کی صورت میں عہدیدار چنا جاتا ہے مقصد عہدیدار کی سیاسی سوچ دیکھنا پرکھنا پھر منتخب کرنا یعنی آج بی ایس او کسی کے لئے ڈر اور فکر کا باعث نہیں آج اس کا کابینہ کینٹ کے پروگراموں میں جاکر شرکت کر سکتا ہے میوزک اور ڈھول کے تاپ پر وہاں ناچ سکتا ہے آج کے بی ایس او کے مرکزی عہدیدار مورچہ زن قلعے بنا سکتا ہے گارڈز رکھ سکتا ہے کھیتران اور مری مسئلے کا گارنٹر اور مذاکرات کا حصہ ہو سکتاہے کالی شیشوں والی دفاتر میں ایک طرف بلوچ مسنگ پرسنز اذیت برداشت کررہے ہوں تو دوسری جانب بی ایس او کے کابینہ کے لوگ وہاں پائے جاسکتے ہیں لواحقین کا ڈیتھ اسکواڈز سے ملاقات اور مذاکرات کراسکتے ہیں اتنے قابل ذہین ہیں کہ ملازمت اور بی ایس او کا عہدہ دونوں ساتھ چلا لیتے ہیں، عزت کیا نظریہ کجا؟ ڈیتھ اسکواڈز کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر دیتے ہیکہ میں یہ ہوں دیکھ لو اور جو کرنا ہے کرلو یا پھر یہ دیکھنے کہ بلوچ قوم کیا کہتی ہے، ارے قوم کی بحث میں تم شامل ہی نہیں نہ تم قوم کے لیے کوئی موضوع ہو۔ کیونکہ اب منشیات فروشوں اور ڈیتھ اسکواڈز کا پی ایس بننا بھی قابل فخر سمجھا جاتا ہے اور دلیل و مثالوں سے اس کا دفع کیا جاتا ہے بقول ایک دوست کے بی ایس او کے ایک سابق وائس چیئرمین سے ملنے چند دوست خضدار گئے تو چیئرمین صاحب نے کہا آج جب پاکستان کرکٹ ٹیم کا میچ ایک لمحے کے لئے پھنس گیا تو یقین کریں میرا قومی جزبہ اس وقت بھی جاگ گیا ، دوست گئے تھے بلوچ قوم پرستی اور سیاست پر لیکچر سننے اور ایسا لیکچر سنے کہ ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہوئے ایک ایک کرکے نکل گئے۔
اسی لئے پروفیسر منظور بلوچ آج کے بی ایس او کو تاریخ کی ڈسٹبین میں اور شبیر بلوچ ٹروجن گھوڑے کے طور پر دیکھتے ہیں، مجھے لگتا ہے یہ ان دونوں کے قریب ہے اب کروٹ لے نہ لے محسوس کرے نہ کرے وہ اس پر منحصر ہے ۔
بی ایس او روزاول سے مختلف دھڑوں میں منقسم رہی ہے بلکہ کسی نہ کسی سیاسی قوت کی طلبہ ونگ بھی رہی ہے البتہ ان دھڑوں میں سے ایک دھڑہ ہمیشہ متحرک و مضبوط بن کے ابھرا ہے اس ابھرنے کی وجہ بلوچ قومی موقف سے قومی مزاحمت سے جھڑے رہنا ہے۔یقیناً دو ہزار دو کے بعد بی ایس او نے ایک نیا مزاحمتی و سیاسی رخ اپنایا اور خود تاریخ و حالات نے ہی بی ایس او کو اس نئ ڈگر مگر بہت پرانی راہ پر مزین کیا جس کی وجہ بلوچستان کے سیاسی حالات ، مزاحمت اور آپریشنوں تھے جو اجتماعی قبروں مسخ شدہ لاشوں اور مسنگ بلوچ سیاسی کارکنان پر مبنی تھے اس بات میں کوئی دو راۓ نہیں ہے کہ ان سب میں زیادہ تر تعداد بی ایس او کے دوستوں کی ہیں ، ” ان عظیم ہستیوں کے لئے میں زاتی طور پر لفظ مسنگ پرسنز استعمال کرنے پر اختلاف رکھتا ہوں کیونکہ یہ سارے مسنگ بلوچ سیاسی کارکن تھے”۔
بلوچ بلوچستان شہدا مسنگ پرسنز اور بلوچوں کی سیاسی تاریخ پر جتنا لکھا جائے وہ کم ہے البتہ اب تک لکھا کچھ بھی نہیں گیا ہے اس کی وجہ قلم اور بندوق یا یوں کہیں کہ دانشور اور مزاحمت کار کا نہ ملنا ہے اسے صحیح طور پر فینن اور الجزائر کا ملاپ کہہ سکتے ہیں یعنی نواب خیر بخش مری کی خواہش بھی تھی یہاں یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ایک مزاحمتکار بھی دانشور ہوسکتا ہے جس کی مثال ہوچی من چے گویرا اور بوس ماؤ و کاسترو کی ہے پر ہمارے ہاں اب تک ان دو کا ملاپ یا اب تک کے تاریخ میں ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں أتا ہے۔بی ایس او آج برائے نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ بس بلوچ نوجوان مصروف رہ سکے اسی لئے ایک کمزور وجود رکھتا ہے جس سے سرکار اور پارلیمانی پارٹیاں خوش ہیں ، اب اگر ایک ڈھانچہ اپنا وجود خود رکھے تو اس کی مناسبت سے تعلق جوڑ کر سیاست کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ماسوائے زاتی اور گروہی مفاد کے، بالکل اسی طرح بی ایس او اپنا وجود رکھتی ہے تو دوسری جانب بی ایس او ایکس کیڈرز کے نام سے بھی ایک الگ گروہ خود کو زندہ رکھنے کی ناکام کے کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یہ بی ایس او کے موجودہ قیادت کو ان سے پوچھنا چاہیے تھا کہ ان کی وجود پر سیاست اور قبضے کی کوشش کیوں ؟ خاص کر جب اس طرح کی سیاست وہ لوگ کریں جنکا تعلق کسی بھی قسم کی سیاست سے نہ ہو یا پھر مختلف الخیال پارٹیوں سے تعلق ہو میرا لکھنے کا مراد ایکس کیڈر نامی گروپ سے ہے۔یہ آج سے تقریباً چار سال پہلے کی بات ہے جب بی ایس او کے ایک سابق دھڑے کے سابق چیئرمین کو نیشنل پارٹی سے ناظمی کی سیٹ پر جھگڑا کرنے کی وجہ سے نکالا گیا پھر صاحب دو اور چیئرمین کو ساتھ ملاکر بی این پی عوامی میں گئے وہاں سے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ سارے نکالے گئے تب اول الذکر نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک بیان جاری کیا اور عام رائے لینا شروع کیا کہ وہ موصوف کس سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرے اور آپشن کے طور پر پھر خود ہی بی این پی مینگل اور جمعیت کے نام ظاہر کئے تھے لوگوں کی اکثریت نے جمعیت میں شامل ہونے کی رائے دی جوغالبا ایک قسم کا ظنز تھا، جمعیت اور بی این پی دونوں الیکشن اور اقتدار کے لئے پر تول رہے تھے الیکشن قریب تھے دونوں پارٹیاں ایوانوں کے مزے لینا چاہتے تھے تو چیرمین صاحب کا مسئلہ اقتدار تھا پارٹی چاہیے جو بھی ہو ، اول آپشن جمعیت تھا اور جس عزیز کے ذریعے وہاں جانا چاہتے تھے جمعیت نے اسے ہی نکال باہر کردیا تو دوسری آپشن بی این پی مینگل ہی تمام پارٹیوں کی یاترا کے بعد رہ گیا تھا، سابق سفر میں ن لیگ بھی شامل تھا، حالانکہ سوشل میڈیا سروے میں انھوں نے خود جمعیت کو بطور موثر آپشن کے ظاہر کیا تھا ، اب اگر کوئی بی ایس او جیسی عظیم ادارے سے وابستگی رکھتا ہوں اس کا سربراہ رہا ہوں پچیس تیس سال تک پارلیمانی سیاست بھی کرتا رہا ہو پارٹیوں سے نکالے جانے پر لوگوں سے راۓ لے کہ اسے کس سیاسی پارٹی میں جانا چاہیے وہ ایک الگ بحث اور اچھا موضوع ہو سکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔