نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز (حصہ ششم) ۔ عمران بلوچ

318

نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( حصہ ششم)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

خستہ حال قبریں اور ٹوٹی تختیاں

شہدا ء بلوچستان بشمول نواب نوروز قلات میری کی آغوش میں تدفین ہیں ان کی قبروں کے تختیوں پر شہدا کی جدوجہد اور پھر تختہ ء دار پر لٹکانے کے بارے میں مختصر تحریریں موجود ہیں اس کے علاوہ ایک پتھر پر بالکل الگ سے مختصر تعارف بھی آویزاں ہے جو اس طرح سے لکھا گیا ہے، “سر زمین بلوچستان پر قبضہ کے خلاف نواب نوروز خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جابر حکمرانوں کیساتھ لڑتے رہے غلامی کے خلاف اور آزادی کے حق میں جام شہادت نوش کیا ایسے انسان جو مادر وطن کی آزادی اور آجوئی کی خاطر لڑتے ہیں وہ ہمیشہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہتے ہیں ان کے شہادت بلوچستان کی آجوئی کی خاطر مشعل راہ ہے اور یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک غاصبوں کا قبضہ ختم نہیں ہوگا۔

اسی طرح شہید سبزل خان کے قبر پر تحریر ہے ۔ 15 جولائ 1960 ۔”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کے حیات ہے۔
شمع آزادی کے حفاظت اور مقصد کی جانب رواں دواں با کردار اقوام کے رہنما مال، اولاد جان کی قربانی سے نہیں ہچکچاتے”۔ساتھی شہدا کے نام درج زیل ہیں، شہید بھٹے خان زرکزئی، شہید غلام رسول نیچاری، شہید ولی محمد زرکزئی، جمال خان جام، مستی خان موسیانی، بھاول خان موسیانی اور سبزل خان کاکڑزئی۔

ان تمام شہدا نے شہادت کے بعد تعلق کی نباہ کی ہے اور آج بھی یہ سب اکھٹے بابو نوروز کی امامت میں ایک ہی جگہ دفن ہیں۔

یقیننا شہداء بلوچستان کے لیے وہ پھانسی کا تخت نہیں بلکہ شہادت کا تخت تھا مگر دلچسپ بات یہ ہیں ان قبروں کی مرمت آخری بار دو ہزار دس میں کی گئی ہے اور یہ مرمت آزادی پسند کجا، قوم پرست کجا، بی ایس او کجا، ایکس کیڈر کجا ، ورثہ کجا ؟ ان سب سے دور دور تک کا تعلق نہ رکھنے والے ایک شخص نے کرایا ہے مگر آج ان عظیم شہدا کی تاریخ ہو یا پھر شہید خان مھراب خان، نوری نصیر خان اور آغا عبدالکریم کی ان تمام کے آخری آرام گائیں انتہائی خستہ حالت میں ہیں، سوچتا ہوں ان کی آخری نشانیاں آنیوالی نسلیں دیکھ پائینگی کہ نہیں۔

کتنے سیمیناروں ، جلسہ جلوسوں، مظاہروں اور تعزیعتی ریفرینسز میں ان کا نام لیکر جزباتی تقریریں اور بھڑک بازیاں کرتے ہیں؟ کتنے لوگ ان کے نام پر سیاست و تقریریں کرکے اور چندہ لیتے لیتے کروڑ پتی بن گئے مگر شہدا کی قبریں خستہ حال ہی رہے ، حالیہ پندرہ جولائی کو ان کے نام پر جو چندہ کیا گیا تھا ان پیسوں سے یہ مقبرے اچھے طریقے سے مرمت ہو سکتے تھے سوچتا ہوں ان کے نام پر کتنا چندہ لیا ہوگا اور پھر آج بھی چندہ کیوں؟

ایکس کیڈر ہو یا کوئی اور اب بھی ان کے نام ہی چندہ کیوں؟ کوئی خود سے اپنی کمائی سے ان قبروں کی مرمت کیوں نہیں کراتا۔ وہ مقبرے نہیں ایک تاریخ ہیں، عظمت کی، ہمت کی اور مزاحمت کی، آنیوالی نسلوں کی امانت ہیں یہ مقبرے ان نشانیوں کے بغیر بلوچ و بلوچستان کیسے مکمل ہو سکتا ہے، ان کے نام پر ہر کیڈر نے ہمیشہ چندہ کرکے اپنے دن اور راتیں روشن کی ہیں جو حالیہ ایکس کیڈر کے خضدار پروگرام میں بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ کتنی دفعہ ہم اپنی تقریروں، بھڑک بازیوں میں یہ کہتے نہیں تھکتے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے تو ان شہدا کو یا تمام شہدا کو ایک مردہ قوم کیوں ملا ہے؟ شہید زندہ ہیں کھبی نہیں مرتے ، اگر یہ سچ ہے تو لازماً وہ یہ سب دیکھ رہے ہونگے اور انھیں نہ صرف اس سوئی ہوئی قوم کے خلاف خاص کر آج بھی ان کے نام پر چندہ کرکے اپنی راتیں روشن کرنے والوں کے خلاف ایک اور مزاحمت کرنی ہوگی۔۔۔ مزاحمت زندگباد

جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔