نواب نوروز، شہدا ء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( حصہ چہارم )
تحریر: عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نواب نوروز کے سوتیلے بڑے بھائی خان محمد زرکزئی نے انگریز دور میں مزاحمت کی تھی اور نواب نوروز ان کے ساتھ رہے وہ نواب نوروز کو ہمیشہ ایک اچھا مزاحمت کار نہ ہونے کا تانا دیتے تھے، شاید یہی بات ان کے ذہن میں بیٹھ گئی تھی کہ انھوں نے ایک بہترین مزاحمتی رہبر بن کے بلوچوں کی قیادت کرنی ہے ایک اور بات یہاں یہ ثابت ہوتی ہے کہ نواب مزاحمت اور جدوجہد کے حوالے سے جبری الحاق سے پہلے ہی کلیئر تھے اور جنگی تجربہ رکھتے تھے۔
ایک صبح جب نواب خان محمد کی لشکر کا انگریز کی فوج سے دو بدو لڑائی ہونی تھی تو وہ اپنے خیمے میں مردہ حالات میں پائے گئے، یہ معاملہ تاریخی طور پر جب نواب نوروز کی شخصیت کا تنقیدی جائزہ لیا جائے گا تو یہ اس میں ضرور شمار ہوگا مگر آج کے لئے یہ میرا موضوع نہیں ہے ، دراصل بعض اوقات انسان اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اس کا ازالہ بہترین انداز میں کرلیتا ہے یہی معاملہ ہمیں نواب نوروز اور نواب اکبر خان بگٹی کی شخصیات میں قدرے مشترک ملتا ہے۔
نواب نوروز اور باقی جہدکاروں کو دھوکہ سے قرآن کا واسطہ دیکر گرفتار کیا گیا ایسا نہیں تھا کہ وہ لڑ نہیں سکتے تھے یا تھک ہار کر ان کے ہمت اور جزبہ جواب دے چکے تھے بلکہ پہلے اتارا گیا پھر گرفتاری ہوئی اس کے بعد ان کے ساتھیوں کو پھانسی دیدی گئی, دھوکہ دینے والے وہی تھے جنھوں نے آغا عبدالکریم کو بھی دھوکہ دیا تھا۔
نواب نوروز کے علاوہ باقی سات شہدا کو سات جولائی انیس سو ساٹھ کو ایک ہی دن حیدراباد اور سکھر جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا یہ ملٹری کورٹ کا فیصلہ تھا۔ جی ہاں وہی ملٹری کورٹ جس کا تذکرہ آج دوبارہ ہورہا ہے اور جس کی خوف سے اپنا رونا روکر روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنسز کرکے اپنی پارٹی، سیاست سب چھوڑ رہے ہیں۔
شہید حمید بلوچ کو بھی اسی ملٹری کورٹ نے پھانسی دلائی تھی یہ ملٹری کورٹس کھلی کیمپ بلوچ گزشتہ ستہتر سالوں سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ ان کا سامنا بھی کررہے ہیں، دوسری جانب ان کے ڈر سے گزشتہ پچھتر چھیتر دن سے پنجاب میں جو کچھ کر رہا ہے دنیا وہ سب دیکھ رہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ جب بھٹے خان کی لاش نواب صاحب کو دکھایا گیا تو اس کی موچھیں ڈھکی ہوئیں تھیں جنھیں نواب صاحب نے اپنی انگلی سے تاؤ دیکر اوپر کردیا تھا۔
سلیم بگٹی کے قتل کے بعد نواب اکبر کے حوالے سے بھی لوگوں نے اسی طرح کے مناظر دیکھے تھے۔نواب اکبر خان شہید نے کہا تھا کہ اپنی زندگی میں اگر وہ کسی کے بہادری، صبر واستحقامت سے متاثر ہے تو وہ نواب نوروز خان ہے نواب خیر بخش مری بھی انھیں اپنے پسندیدہ کرداروں میں مانتے تھے۔
قبضہ گیر ڈر خوف ظلم و بربریت کی بنیاد پر ہمیشہ اپنے قبضے کو برقار رکھنا چاہتا اور مختلف حربے استعمال کرتاہے اب نوروز خان سمیت ساتوں شہدا ایک ہی جرم کی پاداش میں گرفتار کئے گئے تھے تو پھر ان کو الگ الگ رکھنے کا کیا مقصد تھا؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آج کل بلوچ مسنگ پرسنز کیساتھ اور ان کی خاندانوں کے ساتھ ہورہا ہے کسی کو تربت سے اٹھاکر خضدار سے ظاہر کرنا کوہلو سے اٹھا کر قلات سے ظاہر کرنا، مقصد صرف اور صرف ڈرانا خوفزدہ کرنا اور تھکانے کی کوشش کرکے سیاست سے دور رکھنا ہے۔
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔