نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز ( حصہ اول) ۔ عمران بلوچ

606

نواب نوروز! شہداء بلوچستان اور ایکس کیڈرز
( حصہ اول)

تحریر: عمران بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان قدرتی وسائل کیساتھ ساتھ انسانی وسائل اور حادثوں کی سر زمین کہلاتی ہے وہ چاہے أپریشنز کی وجہ سے ہو چوری ڈکیتی کی وجہ سے یا پھر روڈ حادثوں کی وجہ سے، نوشیروان عادل سے لی کر پی ڈی ایم تک، نہ جانے أگے کہاں تک، اس سر زمین کو کتنی مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبریں اور أپریشنز دیکھنے کو ملیں۔ اب تو بلوچ و بلوچستان اس سب سے ہی پہچانے جاتے ہیں، ایسا کوئی دن کوئی تاریخ کوئی ماہ و سال نہیں جس میں درد کی تکلیف کی لاشوں کی شہیدوں کی اور أپریشنز کی داستان نہ ہو، کمال ہے یہ سرزمین نہ پھٹتا ہے نہ الٹ کر پہلو بدلتی ہے بس ہمیشہ اپنے بچوں کو گود لیتی أرہی ہے۔

بلوچستان میں داستانوں کی کوئی کمی نہیں ہے کمی ہے تو بس لکھنے والوں کی ، بولنے والوں کی ، سننے اور سمجھنے والوں کی۔

قدم قدم پر اس سرزمین کو اغیار کے ہاتھوں بیچا گیا اس کا سودا لگایا گیا ، بھکاری سوداگر اور دھوکے باز أج بھی موجود ہیں جو گدانوں سے نکل کر محلوں کے مالک بن گئے اور کچھ تاج محل کی خواہش میں حبیب نالہ کے اس پار پہنچ جاتے ہیں ان کا قبلہ میریء قلات کے بجائے ادھر ہے، انھوں نے قوم، تنظیم ،پارٹی یا نظریہ کو دھوکہ نہیں دیا بلکہ گل زمین کو دھوکہ دیتے أرہے ہیں۔اس لیے تاریخ نے جن کو رسوا کیا ہے یا جو مزید رسوا ہونگے وہ ایک طویل داستان ہے پر مجال ہے اس گل زمین نے کھبی کچھ کہا ہو ، بس خاموش ہے کیونکہ اس کی أغوش میں بالاچ مری ، اکبر بگٹی ، قمبر چاکر اور سنگت ثناء جیسے بہت سے سپوت سوئے ہوۓ ہیں اور اسے یہ بھی یقین ہے کہ وہ بانجھ نہیں ہے۔

انھیں اولادوں میں سے کچھ کے قصے 15 جولائی کے زکر سے جانے جاتے ہیں جو پورے بلوچ سماج میں نہ سیاہ نہ سفید بلکہ ایک عظیم دن کے طور پر یاد کیاجاتا ہے بقول بابو نوروز أج کے دن بلوچ قوم غمزدہ نہ ہو بلکہ جشن مناۓ کیونکہ یہ سب دولھے ہیں جو شہادت کے رتبے پر فائض ہوۓ ہیں۔

15 جولائ 1960 سے زرا پیچھے چلے جائیں تو معلوم تاریخ کے مطابق نواب نوروز خان زرکزئ 1875 میں نواب پسند خان کے ہاں زہری میں پیدا ہوۓ انگریز دور میں دو سال سرکاری ملازم بھی رہے مگر مزاج اور قومی پس منظر کے، أقا اور غلام کے درمیان تعلق کے فرق کی وجہ سے کوئی بھی وطن دوست سرزمین کے اولاد قبضہ گیر کے ساتھ نہیں چل سکتا ، یہی کچھ نواب نوروز کیساتھ ہوا، نوکری چھوڑ نے کے بعد وہ اس وقت کے قبضہ گیر کے خلاف لڑتا رہا بلکہ دو بار پابند سلاسل ہواپہلی بار جدوجہد کی پاداش میں اور دوسری بار ایک زاتی معاملے میں جیل گئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔