منزلِ سمعیہ: قومی وجود کو ابدیت بخشنا ۔ سفرخان بلوچ (آسگال)

658

منزلِ سمعیہ: قومی وجود کو ابدیت بخشنا 

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال) 

دی بلوچستان پوسٹ

بارہ سال قبل بلبل پشک اور مولٰی کے دامن توتک میں جب سورج نئے امیدوں کے ساتھ طلوع ہونے والا تھا، یخ بستہ ہواوں کے ساتھ بارش کی بوندیں زمین پر گر رہی تھیں، جس سے زمین کی کوکھ سے اٹھنے والی خوشبو کی سحر انگیزی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔

خون جمانے دینے والی سردی کے ساتھ ایک معمول کی صبح تھی، مگر اچانک گولیوں کی گھن گرج نے اس معمول کی ساعت کو ایک تاریخی واقعہ میں بدل دیا، جب دو نوجوان جدید اسلحہ سے لیس ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی فوج اور اس کے مخبروں کا راستہ روک کر اپنے نظریے اور سرزمین کی دفاع میں دیدہ دلیری سے لڑتے ہوئے بلوچ مزاحمتی تاریخ میں امر ہوگئے۔

اُس دن دشمن نے سرسبز و شاداب اور خوشیوں کے گہوارے توتک کو میدان الم میں تبدیل کردیا تھا اور خوشیوں کے لمحات کی جگہ آہ ؤ بکا نے لے لی تھی۔ اُس دن کے بعد توتک کے لہلہاتے کھیتوں کی جگہ عقوبت خانوں نے لے لی جہاں اب فصل کی بجائے زمین لاشیں اگلتی ہے۔

ظلم کے یہ نقوش اُس تیرہ سالہ کمسن لڑکی کے زہن میں نقش ہوچکے تھے جنہیں وہ اپنے آنکھوں سے دیکھ رہی تھی، زہن کے کسی دریچے میں اپنے بھائیوں کے بہادری کو جزب کرچکی تھی، مستقبل میں دشمن پر کہر بنتے وقت وہ ضرور اس بہادری اور دشمن کی سفاکیت کو یاد رکھے گی۔

اس دن ایک نئی کہانی نے جنم لیا، ایک ان کہی کہانی جس نے آگے چل بلوچ تحریک اور تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑنے تھے۔

توتک کے ازل سے محکم پہاڑ دشمن کی سفاکیت کا گواہ ہیں کہ اُس دن دشمن نے اسی سالہ بزرگ سے لے کر اٹھارہ سالہ نوجوان کو عقوبت کانوں کے نظر کرنے میں عمر کی قید نہیں رکھی اور دشمن نے بلوچی دستار کی لاج پامال کرتے ہوئے توتک کو آگ اور خون میں نہلا دیا تھا۔

وہ کمسن بچی اپنی زہن میں الٹتے روک پر سب کچھ نقش کررہی تھی اور وہ اپنی خوبصورت آنکھیں کو دشمن کی بہ رحمانہ ظلم کی گواہ بنا رہی تھی۔

خوشیوں کے گہوارے توتک کی آزاد فضا میں جنمے اُس کے باسی اب کوہ دامن کے لہلاتے کھیتوں کے باسی نہ رہے، دشمن نے صدیوں سے اُن کے اجداد کی زمین اُن پر تنگ کردی تھی۔

تنہائی ، اجنبیت، اداسی ، بے گھری کا احساس ،ماضی کے گمشدہ اوراق ، ادھورے خوابوں کی تڑپ اور منتظر محبتوں کا داغِ مفارقت، اب وہ ایک ایسے سفر پہ نکل چکا تھا کہ یہ سب اس کے ہمراہ تھے۔ وہ کمسن خاموش لڑکی اِن واقعات کو اپنی شناخت کا حصہ بناچکی تھی اور ادھورے خوابوں کی تلاش اور روشن مستقبل کی امید پر جانب منزل قدم بڑھا چکی تھی جہاں وہ حادثات سے نکل کر شعور سے آشنا ہوگی اور وجود کی جنگ میں شامل ہوگی۔

وقت کا دھارا بدل جاتا ہے اور اُس تیرہ سالہ جلاوطن لڑکی کی زندگی میں جنگ کے کئی نئے کردار کہانی میں شامل ہوتے ہیں جو جنگ کے وسعتوں سے آشنا ہونے کی جستجو میں ہیں اور جگنو کی طرح شمع ( سرزمین ) کے لئے پناہ ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

یہ جنگی کردار محبت کی داستان کو پروان چڑھانے کے بجائے بندوق ؤ بارود سے آشنائی کی باتیں کرتے ہیں۔ بارود جو تبائی کا ذریعے ہے لیکن محکوم اقوام کی اغیار کے خلاف جنگ کا بہترین ہتھیار ہے، وہی بارود جو دشمن پر قہر بننے کی لئے اُس بہادر لڑکی کا ذریعہ جنگ ہوگا ۔

جہاں محبوب کی باتیں محبوبہ سے یہ تھی کہ “جس منزل کی جانب ہم سفر پر نکلے ہیں، وہاں زندگی صرف جہدجہد کا نام ہے اور جہاں خود کو پناہ کرکے قومی وجود کو ابدیت بخشنا ہماری منزل ہے ۔ اس محبوب کردار نے خود کو پناہ کرکے جنگ کو ایک نئی سمت دی اور اُس جون آف آرک کے کردار سے مشبہ لڑکی نے شعور کی منزلیں طے کرکے اپنے محبوب کے چُنے راستے کا انتخاب کرلیا۔

وہی کمسن تیرہ سالہ لڑکی نے بارہ سال بعد دشمن پر قہر بن کر تاریخ کے سنہرے اوراق پر اپنی کہانی نقش کرکے امر ہوگئیں لیکن یہ کہانی اب بھی داستان جنگ کا حصہ ہے اور سرزمین پر جس دن آزادی کا روشن صبح طلوع ہوگا اس دن یہ کہانی مکمل ہوگی۔ اس سفر میں ہر دن ایک نیا کردار جنم لے گا اور اُن کی کہانیاں بارود اور خون سے لکھی جائینگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔