قومی شعور سے جبری گمشدگی تک ۔ کامریڈ وفا بلوچ

315

قومی شعور سے جبری گمشدگی تک

تحریر: کامریڈ وفا بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ جس خطے سے جبری گمشدگی کی اصطلاح کا بازگشت سنائی دی ہے، وہ بلوچستان ہے۔ بلوچستان جنوبی ایشیا میں واحد خطہ ہے جس نے پوری دنیا کو جبری گمشدگی جیسے انسانی مسائل سے آگاہ کیا۔

انسانی تاریخ میں اس طرح کے واقعات بہت کم ممالک میں ہوئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا ہو۔ اس انسانی المیہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں تاریخ کا سہارہ لینا پڑے گا۔ تاریخ اس مسئلہ کو کچھ یوں بیان کرتی ہے کہ دنیا میں جہاں بھی کوئی قومی مسئلہ پیدا ہوا ہے تو اس کے دو فریق ہوتے ہیں۔ ایک فریق وہ ہے جو قبضہ گیر کے طور پر دوسرے فریق کے معدنی اور زمینی ذرائع پر قبضہ کر کے ہر وقت اپنے مفادات کی تحفظ میں مگن رہتا ہے اور دوسرا وہ فریق ہوتا ہے جو قبضہ گیر سے اپنے حقوق کی تحفظ کرتا رہتا ہے۔

بیسویں صدی میں برطانیہ ایک طاقتور سامراجی قوت کے طور پر دنیا کے چھوٹے اور کمزور ریاستوں پر قبضہ کر کے ان کے معدنیات کو لوٹ کر اپنی معیشت کو مضبوط بناکر عالمی مارکیٹ میں اپنا رعب دبدبہ بڑھانا چاہتا تھا۔ اسی طرح امریکہ بھی آج دنیا کے بہت سے اقوام کو اپنے زیر تسلط لاکر ان کی زمینی اور معدنی ذرائع کو استعمال کر کے دنیا میں سپرپاور بن گئی ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جہاں زیادہ طاقتور کمزور کو زیر کرکے اُس کی زمیں قبضہ جما لیتا ہے۔ جب کمزور اور محکوم اقوام میں قومی شعور بیدار ہوتا ہے تو پھر وہاں کوئی طاقت کارآمد نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قومی شعور کے سامنے دنیا کی ساری طاقت ڈھیر ہوگئی ہیں۔

انگولا کی تاریخ گواہ ہے جب جدید ہتھیاروں سے لیس سامراجی ٹولہ کا سامنا اس خطے کے باشعور عوام سے ہوا تو اسے آخرکار شکست تسلیم کرنی پڑی کیوں کہ طاقتور نے یہ قبول کر لیا کہ ہماری جنگ ایک شعور یافتہ قوم سے ہے جو کسی تنخواہ، لالچ اور ذاتی فائدہ کے لیے نہیں لڑ رہا بلکہ اپنی زمین اور قوم کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور سختیوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے جنگ لڑ رہے ہیں، انہیں موت سے کوئی خوف نہیں اور دوسری طرف ان تنخواہ دار فوجی ہے جو ہر وقت اپنے تنخواہ، گھر، بچوں اور ترقی کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ انہیں ہر وقت موت کی خوف گھیر لیتا ہے۔ جب بھی ان کا مقابلہ ان قومی شعور سے لیس نوجوانوں سے ہوتا ہے تو وہ مقابلہ کرنے سے زیادہ فرار اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسی طرح کیوبا، ویتنام، جنوبی افریقہ اور دیگر بے شمار ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ قومی شعور سے لیس اقوام کو سامراجیت کے شکنجے میں زیادہ دیر تک نہیں رکھ سکے ہیں اور باشعور اقوام غلامی کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

1839 میں برطانیہ کے قبضے سے لیکر آج تک بلوچ قوم جنگی حالت میں زندگی جی رہی ہیں۔ برطانیہ اس دور میں ایک عظیم طاقتور کے طور پر ابھرا لیکن پھر بھی بلوچ قوم نے اپنے اپنی کمزور قومی طاقت کے باجود بلوچ قومی تشخص کے خاطر بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ خان محراب خان کی شہادت نے ان کو یہ باور کرایا کہ ہم مر سکتے ہیں لیکن اپنی زمین پر کسی کی قبضہ کو برداشت نہیں کرسکتے یہں۔

انگریز نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے، لالچ دیکر کچھ زرخرید سردار کے ساتھ معاہدے کیے جو بلوچستان کی قبضے کا سبب بنے اور بلوچستان کی زمین کو مختلف کمشنوں کے نام افغانستان اور ایران کا حصہ بنائے گئے۔ میکموہن لائن سرحدی پٹی کھینچ کر افغانستان کے حوالے کیا گیا اور ایک نام نہاد سرحدی پٹی گولڈ سمتھ کے نام پر کھینچ کر بلوچ زمین کا بڑا حصہ ایران کے حوالے کیا گیا اور کئی علاقے انتظامی حد بندیوں کے نام پر پنجاب کے حوالے کیے جبکہ جیکب آباد کو لیز کے ذریعے سندھ کو دے دیا لیکن ان تمام مظالم اور ہتھکنڈوں کے باوجود بالآخر بلوچ قوم نے اس طاقتور سامراجی قوت سے 1947 میں آزادی حاصل کر لیا۔

ہماری بدقسمتی یا قومی طاقت کی کمزوری کے سبب ہم اپنی آزادی زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکے تھے اور نومولود ریاست پاکستان نے برطانیہ کی مدد سے بزور شمشیر 1948 میں بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔ اس کے خلاف بلوچ قوم نے مزاحمت کا علم بلند کیا جو آج تک جاری ساری ہے۔

ہمیں جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو سمجھنے کے لئے بلوچ قومی مسئلے کوسمجھنا ہوگا کیونکہ جبری گمشدگیوں اس لئے کئے جارہے ہیں تاکہ بلوچ قومی جنگ کو ختم کیا جاسکے ۔ انسانی تاریخ سے ہمھیں ایسے کئی مثال ملیں گے کہ جہاں قومی شعور بیدار ہوتا ہے وہاں قبضہ گیر کو خطر لاحق ہوتا ہےکیونکہ اس سے اسکی قبضہ کمزور پڑنا شروح ہوجاتا ہے۔ قومی شعور نوجوانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے ایک آزاد مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے کی ہمت اور جذبہ پیدا کرتا ہے۔

ریاست پاکستان آج بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے، بے بنیاد الزام لگاکر قید کرنے، سی ٹی ڈی کے ذریعے نہتے بلوچوں کو انکاؤنٹر میں قتل کرنے، طلباء کو مختلف طریقوں سے خوفزدہ کر کے قومی آزادی کے تحریک سے دور رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اِن سب مسائل کا حل صرف اور صرف آزادی ہے۔ جب تک بلوچ قوم قبضہ گیر ریاست سے آزاد نہیں ہوتا، اس وقت تک ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

آج بلوچ قوم کے ہر طبقہ کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اپنے قومی آزادی کے لیے جیسے بھی، جہاں بھی ہو اپنے کردار ادا کرے اور اگر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم از کم ریاست کا آلہ کار مت بنیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں