لیاری میں مقیم آواران کے رہائشی بختاور بلوچ کے مطابق پاکستانی فورسز انہیں تنگ کررہے ہیں۔ 20 جولائی کو گھر میں فورسز نے چھاپہ مار کر موبائل اور دیگر چیزوں کو تحویل میں لیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ وہ ایک سماجی کارکن ہیں لیکن فورسز انہیں مختلف بہانوں سے تنگ کررہے ہیں۔ فورسز کی بڑی تعداد نے گھر میں گھس کر گھر کے دیگر افراد اور والدہ سے بدسلوکی کرتے ہوئے انہیں گھر میں آئے دیکر مہمانوں سے متعلق سوالات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم بنیادی طور پر بلوچستان کے رہائشی ہیں یہاں ہمارے عزیز واقارب علاج کے سلسلے میں آتے ہیں تو یہاں ٹھہر جاتے ہیں لیکن فورسز اور خفیہ ادارے سب کچھ جانتے ہوئے ہمیں ہراساں کررہے ہیں۔
لیاری کراچی کے رہائشی نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ جب ہمارے پاس بلوچستان سے کوئی مہمان یا رشتہ دار آتا ہے تو ریاستی فورسز ہمارے گھروں میں گھس کر ہمیں ہراسان کرتے ہیں اور مریضوں کے رپورٹ تک مانگتے ہیں ۔
بختاور کے مطابق گذشتہ رات دوسری مرتبہ فورسز ہمارے گھر آئیں اور تلاشی لی۔ چھوٹے بھائی پر بدترین تشدد کی اور مجھے مارنے کی دھمکی دی گئی اور سولات کیے کہ تم کب خودکش حملہ کروگے، پریس کلب کیوں جاتے ہو ؟
انکے مطابق فورسز اہلکار ایک گھنٹے تک پوچھ گچھ کے بعد گھر کا سارے سامان بکھیر کر گئے اور مجھ سے کہا گیا کہ ماہل بلوچ نے تمھارا نام دیا ہے وہ تمھاری گھر میں رہی ہے ۔
بختاور بلوچ نے کہا کہ میں ماہل کو نہیں جانتی نہ میری گھر آئی ہے اس طرح کے حربوں سے فورسز اہلکار ہمیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں بتایا کہ فورسز اہلکاروں نے بتایا کہ تم نے چمن سے آئی ایک عورت کو اپنے گھر میں چھپایا ہے لیکن یہ سب جھوٹ اور الزامات ہیں ۔
واضح رہے کہ کراچی میں مقیم بلوچ یہ شکایت کرتے ہیں کہ فورسز انہیں رات گئے گھروں میں گھس کر تنگ کرتے ہے اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں کہ فورسز کے اس رویے سے انہیں ذہنی اذیت میں مبتلا کیا ہے۔
کراچی کے بلوچ اکثریتی علاقوں سے اکثر جبری گمشدگیوں کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔