فدائی حملے اور ریاستی بیانیہ – ٹی بی پی اداریہ

601

فدائی حملے اور ریاستی بیانیہ

ٹی بی پی اداریہ

بلوچ قومی تحریک آزادی اپنے تاریخی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور موجودہ انسرجنسی کے روح رواں خیر بخش مری تحریک کو آغا عبدالکریم کی بغاوت کا تسلسل قرار دیتے تھے۔ ستر سال میں بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کئی نشیب ؤ فراز سے گزرتے ہوئے اپنے تسلسل کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے اور موجودہ انسرجنسی پچھلے شورشوں سے زیادہ منظم اور مضبوط شکل میں جاری ہے۔

ریاست پاکستان ستر سالوں سے بلوچ قومی تحریک کو کچھ افراد یا مخصوص گروہ کا مسئلہ قرار دے کر انسرجنسی کے وجود کو ماننے سے انکاری ہے۔ اکیسویں صدی کے ساتھ ہی تحریک آزادی کے آغاز کو جسٹس نواز مری کے قتل اور خیر بخش مری کی گرفتاری سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ جہد آزادی کو کاؤنٹر کرنے میں ناکامی کے بعد فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے بلوچ قومی جنگ کو تین سرداروں سے منسوب کرتے ہوا کہا تھا کہ “ہم انہیں وہاں سے ہٹ کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا“ جس کے جواب میں نواب خیر بخش مری نے کہا ریاست کو بھی علم ہونا چاہئے کہ ہم بھی ستر کے بلوچ نہیں اور ریاست کو اسی زبان میں جواب دیا جائے گا۔

جنرل مشرف کی فوجی حاکمیت کے بعد پاکستان کے سابق صدر آصف زرداری نے بلوچوں سے مفاہمت کرنے کا اظہار کیا، اُن پر ساٹھ سال سے ہوئے ظلم ؤ جبر پر معافی مانگی اور پیپلزپارٹی نے آغاز حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان کیا لیکن آزادی کی تحریک کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد شرم الشیخ سمٹ میں بلوچ تحریک کو انڈیا سے منسلک کرنے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد ہزاروں لوگوں کو جبری گمشدہ کیا گیا اور سینکڑوں کے مسخ شدہ لاشیں سڑک کناروں اور پہاڑوں ؤ ویرانوں میں پھینکے گئے۔

بلوچ تحریک میں فدائی حملوں کا آغاز دو ہزار گیارہ میں درویش بلوچ کی کوئٹہ میں شفیق مینگل پر حملے سے ہوا لیکن دو ہزار اٹھارہ میں ریحان بلوچ کی دالبندن میں چینی انجینئرز پر فدائی حملے کے بعد بی ایل اے مجید بریگیڈ نے پاکستان اور چین کے مفادات پر کئی مہلک حملے کئے۔ شاری بلوچ، تحریک آزادی کی پہلی خاتون فدائی تھی لیکن سمعیہ بلوچ کے فدائی حملے کے بعد پہلی بار مجید بریگیڈ نے خواتین فدائین کی تصویر جاری کی ہے جس سے اخذ کیاجاسکتا ہے کہ مجید بریگیڈ میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

شاری بلوچ کی فدائی حملے کے بعد ریاست نے اُنہیں ذہنی مریض قرار دینے کی کوشش کی تھی اور سمعیہ بلوچ کے عمل کو توتک میں اُن کے خاندان کے لوگوں کو جبری گمشدہ اور شہید کرنے کا ردعمل قرار دیا جارہا ہے لیکن بلوچ انسرجنسی کے تاریخ سے واقف دانشور مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں کہ بلوچ انسرجنسی، آزادی کے لئے شعوری بنیاد پر شروع کی گئی ہے اور بلوچ تنظیموں کے تحریکی فیصلے ادارہ جاتی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔

بلوچ آزادی پسند جماعتیں اور تنظیمیں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو دو دہائیوں سے منظم شکل میں برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ریاست کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ بلوچ انسرجنسی کے وجود سے انکاری ہو کر طاقت کے زور پر انسرجنسی کو ختم کرسکے۔ اگر ریاست کی جبر کے زور پر بلوچ قومی جنگ کو ختم کرنے کی کوششیں جاری رہیں تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا۔