فدائیوں کا بلوچستان ۔ دلجان بلوچ

602

فدائیوں کا بلوچستان

تحریر: دلجان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

محبت اور وفا کی سرزمین بلوچستان پر بقا کی چلنے والی جنگ میں یکے بعد دیگر فدا ہونے والے بی ایل اے کے جانباز سپاہیوں کے حملے تاریخ رقم کررہے ہیں۔ پاکستانی ادارے اور اشرافیہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ بلوچوں کے مردوں کو فضائی و زمینی حملوں میں ہلاک کرکے یا پھر جبری گمشدگیوں کا شکار بنا کر وہ بلوچ خواتین کو ہمیشہ آنسو بہاتا دیکھ کر جی ایچ کیو میں قہقہے لگائینگے لیکن عورت کے آنسو کو اسکی کمزوری سمجھنے والا بے ضمیر دشمن اس بات سے واقف نہیں کہ بے بسی میں آنسو بہانے والی خواتین ایک دن ان جرنیلوں اور انکے آقاؤں کا خون بہائینگے۔ شاری اور سّمو نے اپنے حملوں سے دشمن کو جس طرح نفسیاتی شکست سے دوچار کیا اسکی مثال کہیں نہیں ملتی۔ پہلے دشمن بلوچستان کے پہاڑوں پر بسنے والے نوجوانوں کو یہ طعنہ دیتے تھے کہ چند کیمپوں پر بیٹھے غدار ہیں انکا جلد صفایا کر دینگے اور پنجاب میں زندگی معمول پر چلتی رہیگی مگر اب مزید حالات کا ایسا رہنا ممکن نہیں، اب تو پاکستان کے چاروں کونوں میں دشمن اس خوف کا شکار ہے کہ کہیں کوئی بلوچ فدائی آکر انہیں نیست و نابود نہ کردے۔

پھول جیسی سّمو:

سیاہ زلفیں، چمکتی آنکھیں، چاند سی کھلی مسکراہٹ اور سُرخ رنگت، سّمو کسی بناوٹی ناول کا کوئی خیالی خاکہ یا کردار نہیں بلکہ وہ دور جدید اور حقیقی دنیا کا وہ خوبصورت باب ہے جس نے طوفان سے پہلے محسوس کی جانے والی خاموشی کو بکھیر کر ایک دم دشمن کے ذہنوں پر تباہی مچا کر رکھ دی ہے۔ سّمو نے جس عمر میں اپنے جسم کے ایک ایک حصے کو جس بے باکی سے وطن کی فضاؤں میں اڑا کر جو قربانی دی اسے بیان کرنا شاہد ہی ممکن ہو حالانکہ اس عمر میں جوان لڑکیاں اپنے ناک پر ایک مکھی تک بھٹکنے نہیں دیتیں تو سّمو کو کِس مصیبت نے گھیرا کہ وہ اپنے شریر پر وہ خوفناک بم باندھ کر نکل پڑی جسکے پھٹنے سے میلوں دور لوگوں کے ذہنوں پر برسوں خوف برپا ہوجاتا ہے۔ میری نظر میں قومی جنگ میں صرف ایک رشتہ وجود رکھتا ہے اور وہ رشتہ ہوتا ہے قومی جنگ میں شامل سپاہی کا اپنی سرزمین سے، وہی سرزمین جسے ہم مختلف ناموں سے پکارتے ہیں، وہی سرزمین جسے ہم اپنی ماں کا درجہ دیتے ہیں اور اسی سرزمین کے دفاع میں پیاری سّمو نے خود کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔

سّمو پر بھی تنقید ؟

سب سے پہلے تو ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیئے کہ جنگ میں شریک بلوچ مرد یا خواتین جو سالوں سے اپنا پسینہ اور خون بہا رہے ہیں انہوں اپنی قوم سے سوائے دعاؤں اور ہمدردی کے کچھ نہیں مانگا اگر کچھ مانگا بھی تو وہ انہیں کی قومی فوج ہے، انہیں کے آزادی کے لئے سینا سپر ہوکر دشمن کا مختلف معاذوں پر مقابلہ کررہے ہیں۔ ویسے تو بلوچ شہداؤں کی سوچ و فکر، اوڑھنا بچھونا، ہمت و بہادری ایک سی ہوتی ہے مگر کچھ باتیں جو ذہنوں پر نقش ہوجاتی ہے۔

آزادی کی جنگ میں شریک رہنما شھید اسلم بلوچ کا کہا ایک جملہ یاد آرہا ہے: اللہ ہمیں بے غیرت اور بے حیاہ ہونے سے بچائے۔ کہنے کو تو یہ ایک عام سا یا پھر رسمی جملہ ہے مگر جب میں انکا آخری پیغام سن رہا تھا مجھے یہ محسوس ہوا کہ جو شخص سالوں سے دشمن کی نیندیں حرام کیا ہوا ہے وہ اندر سے کتنا معصوم ہے، یہ جملہ کسی بھی شخص کی ایمانداری کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے، مطلب جو شخص جسم پر دشمن کی گولیاں کھا کر بھی اپنے ارادوں کو مزید مستحکم بنانے کے لئے دعا گو ہے۔ تو ایسے لوگوں کی قربانیوں پر کیسا سوال ؟ کونسی جواب طلبی ؟

سّمو بھی کسی ایرے غیرے یا نتھو خیرے کے لئے یا کسی کی خوشنودی کے لیے سینے پر بارود باندھ کر نہیں نکلی بلکہ وہ تو قوم کی ان عظیم سپاہیوں میں سے ایک تھی جسے اپنی قومی ذمہ داری کا احساس کم عمری سے ہوگیا تھا اور پھر اس راہ پر چلتے ہوئے سالوں بعد اس نے سرزمین کو دشمن کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا۔ مکر، فریب اور چالاک زمانے میں آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کسی کو اپنی باتوں سے بہلا پھسلا کے اسے جان کی قربانی دینے کے لئے راضی کر سکتے ہیں ؟ نہیں ہر گِز نہیں۔ تنقید کرنے والوں کو کافی قریبی سے دیکھا ہے وہ تو اپنے مفاد کے بغیر آپ کے ساتھ دو قدم چلنے کو تیار نہیں ہوتے تو وہ کس لئے کسی دوسرے کی ایمانداری پر سوال کرتے ہیں ؟ قومی فریضے بتائے نہیں جاتے، اپنائے جاتے ہیں، جو ہر اس شخص پر واجب ہوتے ہیں کہ وہ انکی پاسداری کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ ہم اگر جنگ میں شریک نہیں ہوسکتے، سینوں پر بارود نہیں باندھ سکتے تو کم از کم سّمو جیسی پھول جیسی خوبصورت کَلی کی قربانی پر اپنے سینوں میں نفرت و بغض نہ رکھیں، ان کی مختصر عمر میں دی جانے والی عظیم قربانیوں کا اپنے بیہودہ سوالات سے انکا مزاق نہ بنائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔