خدا کی زبان ۔ منیر بلوچ

455

خدا کی زبان

تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

آبادی انسانوں کی تھی لیکن وہاں انسانوں کی تلاش مشکل تھی۔ شکل و صورت، عادات و حرکات سب انسانوں جیسے تھے لیکن انسان کی تلاش کے لئے دن کی روشنی میں چراغ جلانے سے بھی انسان کو ڈھونڈنا مشکل تھا۔ مراد جب یہاں آیا تو وہ ان کو دیکھ کر حیران و پشیماں ہوا کہ آخر وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ یہاں کے لوگ تو بات بھی انسانوں کی طرح کرتے ہیں لیکن ان کے اندر اور باہر کا انسان پتہ نہیں کہاں ہے۔ اس انسان کو ڈھونڈنا ہوگا۔ جب مراد کسی شخص میں موجزن انسان کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا، ان سے بات کرنے کی کوشش کرتا تو وہ عجیب نظروں سے اسے دیکھتے۔مراد کو ڈرانے کی کوشش کرتے لیکن اپنے لب نہیں کھولتے۔ مراد ان لوگوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ کیوں دنیا میں آئے ہیں؟ ان کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ بس دنیا میں آنا اور اپنے جیسے دس بارہ بچوں کو پیدا کرکے بھول جانا کہ یہ میرے بچے ہیں؟کیا یہی زندگی ہے یا زندگی کا مقصد کچھ اور ہے۔پھر وہ سوچنے لگا شاید وہ میری زبان نہیں سمجھتے یا میری بات سمجھنے سے قاصر ہے؟

مراد کو اس علاقے میں آئے ہوئے کچھ دن ہی گزرے تھے وہ ایسے محسوس کرنے لگا کہ وہ پاگل ہورہا ہے اس کا دماغ کچھ کام نہیں کررہا ہے اگر دن یونہی گزرتے رہے تو ایک دن وہ بھی اپنے پانچ حس سے محروم ہوجائے گا اور ن لوگوں کی طرح ہوجائیگا۔

اسی خوف کو مدنظر رکھ کر مراد نے سوچا کچھ ایسا کیا جائے جو ان لوگوں کی زبان کو جنبش دیا جاسکے, ان سے بات کیا جاسکے تاکہ ان کی فطرت کو سمجھا جاسکے اور یہ پتہ لگایا جاسکے کہ وہ اپنے ہی لوگوں میں اجنبی اجنبی سا کیوں محسوس کررہا ہے؟

مراداس آبادی کے نزدیک کسی پڑھے لکھے اور شعور یافتہ انسان کو جانتا تھا اس کی خواہش تھی کہ اس شخص سے ملاقات ہو۔ ملاقات کے لئے اس نے بذریعہ فون رابطہ کرلیا اور ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو اس شخص نے کہا کہ ٹھیک ہے میں اتوار والے دن ملاقات کے لئے تیار ہو۔

اتوار کے دن مراد تیار ہو کر اس شخص سے ملاقات کے لئے چلا جاتا ہے۔ایک گھنٹہ انتظار کے بعد وہ شخص آجاتا ہے سلام دعا ہوتی ہے اور مراد اس شخص کے سامنے پورا منظر نامہ پیش کرتا ہے تو وہ شخص کہتا ہے کہ یہ صورتحال گھمبیر ہے اور ایسی صورتحال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان بنیادی ضروریات اور شعور سے محروم ہو ان دونوں کی محرومی انسان کو خوف میں مبتلا کردیتا ہے اور خوف احساس کمتری کو جنم دیتا ہے اور احساس کمتری موت کا نام ہے اور یہ تم بھی جانتے ہو مردہ انسان بات نہیں کرسکتا تم جس سماج سے تعلق رکھتے ہو وہ سماج مکمل مردہ ہوچکا ہے اس لئے تم آئندہ آنے والی نسل کو مرنے سے بچاو ان کے لئے جدوجہد کرو اور ان کو بچانے کے لئے تمہیں خدا کی زبان کو استعمال کرنا ہوگا۔

ملاقات ختم ہوئی مراد سوچنے لگا اب ایسا کیا کیا جائے جس سے اس کے علاقے کے بچے جو مستقبل کا ستارہ ہے ان کو محفوظ رکھا جاسکے اس لئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ فن کے ذریعے لوگوں کو ان کے اصل مسائل سے آگاہ کرے گا اور ان میں جدوجہد کا عنصر شامل کردیں گا۔ ادارے کی بنیاد رکھنے میں اسے بہت سے مشکلات پیش آئی لیکن وہ جدوجہد کرتا رہا کم از کم چھ مہینے کے عرصے کے بعد اس نے اپنے علاقے میں ایک چھوٹے سے ادارے کی بنیاد رکھی جس میں بچوں کو قصے کہانیاں تحریر کرنے کے علاوہ، فنون و لطیفہ اور فن پارے تخلیق کرنے کی تربیت دی گئی۔ علاقے کے بچے بھی آتے رہے اور کچھ سیکھتے رہے کچھ نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئی۔ لیکن تبدیلی یکطرفہ نہیں ہوتی، بلکہ دو طرفہ ہوتی ہے۔ ایک طرف سماج میں بسنے والی انسانوں کی سوچ میں نمایاں تبدیلی آنے لگتی ہے اور دوسری طرف تبدیلی مخالف علاقے میں منشیات عام کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اسکے خلاف خدا کی زبان میں ایک مہم چلائی جاتی ہے جو کامیابی کے مراحل سے گزرتی ہے لیکن تبدیلی مخالف جن کی سرپرستی کرنے والے عقل سے پیدل بوٹ والے ہوتے ہیں وہ ایک دن علاقے میں چھاپہ مار کر مراد سمیت کئی لوگوں کو لاپتہ کرتے ہیں لیکن جس سفر کا آغاز خدا کی زبان سے ہوئی ہو وہ خاموش نہیں رہ سکتی اور یہ وہی خدا کی زبان ہے جس نے گونگے کو زبان اور اندھے کو بینائی دے تھی۔ مراد کے شاگرد بھرپور پروگرام چلاتے ہیں اور ان درندوں کے منہ سے مراد اور دیگر لوگوں کو واپس لے آتے ہیں۔ اسی دن مراد سمجھ گیا تھا کہ خدا کی زبان سے ہم جدوجہد کرکے اپنے گونگے اور اندھے معاشرے کو صیح سمت میں گامزن کرسکتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔