حقیقت پسندی
تحریر: بیورگ خان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عالمی تعلقات عامہ میں ایک تھیوری حقیقت پسندی یا رئیلزم کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حقیقت پسندی بین الاقوامی تعلقات میں ایک نمایاں نظریہ ہے جو ریاستوں کے طرز عمل اور بین الاقوامی نظام کی ساخت کی وضاحت کرتا ہے۔ حقیقت پسندی کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ ریاست بین الاقوامی معاملات میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، اور ان کے اعمال بنیادی طور پر خود غرضی ، طاقت اور قومی سلامتی کے حصول کے لیے کارفرما ہوتے ہیں۔
حقیقت پسندی نظریہ کے کلیدی اصول:
1: اسٹیٹ سینٹرک اپروچ: حقیقت پسندی بین الاقوامی تعلقات میں قومی ریاستوں کے کردار پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ دوسرے اداکار جیسے بین الاقوامی تنظیمیں(جیسے اقوام متحدہ) یا غیر ریاستی اداروں(این جی اوز جیسے ریڈ کرسنٹ) کو ان کے اثر و رسوخ میں ثانوی سمجھا جاتا ہے۔
2: بدنظمی : حقیقت پسند بین الاقوامی نظام کو انارکی کے طور پر دیکھتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ریاستوں کے درمیان قواعد و ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے کوئی مرکزی اتھارٹی یا عالمی حکومت نہیں ہے۔ اعلیٰ اتھارٹی کا یہ فقدان ایک سیلف ہیلپ سسٹم بناتا ہے جہاں ریاستوں کی بقااور سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
3: عقلیت اور خودی: حقیقت پسندوں کا خیال ہے کہ ریاستیں عقلی اداکار ہیں جو اپنے قومی مفادات کو سب سے زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ ان مفادات میں اکثر خودمختاری، تحفظ، اور طاقت کا ذخیرہ شامل ہوتا ہے۔
4:طاقت کا توازن: حقیقت پسندی ریاستوں کے طرز عمل کی تشکیل میں طاقت کے توازن کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ طاقت کے توازن کے نظریہ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستیں اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد یا آپسی تعاون بنا کر غالب طاقت کے عروج کو روکنے کی کوشش کریں گی۔
5 قومی سلامتی: حقیقت پسندوں کے لیے سلامتی ایک بنیادی تشویش ہے۔ ریاستیں اپنے آپ کو ممکنہ خطرات سے بچانے کے لیے اقدامات کریں گی، اور فوجی صلاحیتیں سیکورٹی کے مقاصد کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
6 ریاست کی بقا: بقا ریاستوں کا حتمی مقصد ہے، اور وہ ممکنہ چیلنجوں یا خطرات کے پیش نظر اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کام کریں گی۔
مندرجہ بالا نظریہ کے مطالعہ سے چند چیزیں قابل غور ہیں کہ عالمی نظام میں ایک ریاست اندرونی طور پر خودمختار ہے جہاں معاملات کو دیکھنے کے لیئے ایک حکومت ہوتا ہے جو قانون نافذ کرتا ہے۔ جبکہ تمام ریاستوں کی نگرانی کے لیئے کوئی عالمی حکومت وجود نہیں رکھتی جو ریاستوں کے درمیان قوانیں نافذ کرے۔ ایسے میں ریاستیں اپنے بقا اور قومی سیکورٹی کے لیے خودانحصاری سے کام لیتے ہوئے کام کرتے ہیں جس میں طاقت (عسکری، سیاسی، معاشی، نظریاتی، توانائی) بڑھانے کی کوشش جاری و ساری رہتی ہے۔ ایسے میں اتحادیں بنتی اور ختم ہوتی ہیں تاکہ طاقت کے توازن کو برقرار رکھا جاسکے۔
اس نظریہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے بلوچ قومی تحریک پر غور کیا جائے تو بہت سی چیزیں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
حقیقت پسندی کے تحت ریاست ہی اصل کردار ہوتا ہے اور وہ ریاست عالمی بدنظمی کے سبب خودانحصاری سے کام لیتے ہوئے اپنے قومی سلامتی کے لیئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔
اس نظریہ کے تحت بلوچ تحریک(بلوچ ریاست) اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرتے ہوئے خود انحصاری سے ایسے اقدامات کرے جس سے طاقت کا توازن تبدیل کرکے قومی مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔ بلوچ ریاستی طاقت اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے یا باالفاظ دیگر وجود ہی نہیں رکھتی۔ بلوچ قومی تحریک کے اسٹیک ہولڈرز کو تحریک کو بطور ریاست تشکیل نو کرنا چاہیے اور اندرونی و بیرونی طور پر ایک ریاست کے شکل میں نظر انا چاہیئے۔ اور ایک ریاست کے شکل میں خود انحصاری سے اپنی طاقت بڑھانا چاہیے تاکہ مخالف ریاستوں کے مقابلے میں طاقت کا توازن ہمارے حق میں بڑھتا رہے۔
چونکہ کوئی عالمی حکومت وجود نہیں رکھتی اور بین الاقوامی تنظیمیں ( اقوام متحدہ)اپنی ثانوی کردار کی وجہ سے کسی سرکش ریاست جیسے پاکستان کو سرکشی پر پکڑ کر سزا دے سکے۔ ایسے میں بلوچ ریاست کو اپنی بقا اور دفاع کے لیئے اپنی مدد آپ کے تحت ایسے اقدامات اٹھانے ہونگے جو انکی طاقت میں اضافہ کرے اور مخالف ریاست کی طاقت کو محدود کرسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں