جنگیں اور دشمن کا خوف – مھگونگ بلوچ

377

جنگیں اور دشمن کا خوف

تحریر: مھگونگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگیں شدید ردِعمل ہیں اُس ظلم و بربریت اور سفاکی و دردندگی کا جو دنیا میں ایک گروہ طاقت کے حصول کے لیے دوسرے گرو ہ پہ کرتا ہے جنگ کی شدت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کمزور کے ساتھ کس حد تک بے رحمانہ سلوک کیاگیا ہے۔ جنگیں ناگزیر ہیں اور پھر مسلط کردہ جنگوں سے تو بھاگا نہیں جا سکتا۔ جنگیں نہ صرف انفرادی تبدیلیاں لاتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کی ساخت بدل جاتی ہے۔ جنگیں کہانیوں کو ادھورا لیکن پراسرار بناتی ہیں، یہ کرداروں کو زندہ رکھتی ہیں۔ جنگوں میں مسکراہٹیں تو نا پید ہو جاتی ہیں مگر محبتوں میں شدت ضرور آ جاتی ہے آنسوؤں کے سمندروں میں امید کے سیپ خوشیوں کے سچے موتی بناتے ہیں۔ جنگ جب آتی ہے تو آہیں اور سسکیاں لے آتی ہے اور جاتے ہوئے قبروں کو بھر جاتی ہے درد اور کرب کی داستانیں عام طور پرسنائی دیتیں ہیں۔

ذہنی سکون ناپید ہو جاتا ہے بھوک سے بلکتے اور لاغر جسم ظلم و بربریت والی فضاء میں سانس نہیں لے پاتے مگر آنے والی نسل کو سانسیں دے جاتے ہیں۔ جنگ جب شروع ہوتی ہے تو خون کا ایک سمندر چاہیے ہوتا ہے زمین کی پیاس بجھانے کے لیے اگر قوم کا کوئی فرد اِس قربانی سے دریغ نہ کرے تو وہ مر نہیں سکتا کیونکہ انصاف کے لیے کی گئی جنگوں میں بہایا جانے والا خون قوموں کے لیے آبِ حیات ہیں۔ جنگیں ایسا غیر معمولی عمل ہیں جو آزاد سوچ اور فکر کو جنم دیتی ہیں۔ اگر مسلط کردہ جنگوں سے بچنے کی کوشش کی جائے، اُن کے سامنے خود کو چھپا لیا جائے اور خاموشی کو زندہ رہنے کے لیے ضروری سمجھا جائے تو خاموشی صرف موت کی علامت بن جاتی ہے انفرادی اور اجتماعی موت کی نشانی بن جاتی ہے۔ وجود کے سرد ہونے کے بعد انسان بے آواز ہوتا ہے اور دنیا صرف آوازوں کو یاد رکھتی ہے ظلم و بربریت کے وحشیانہ شور کو حق و انصاف کے حصول کے لیے اٹھاۓ گئے اسلحے کی جھنکار اور گولیوں کی آوازوں سے دبانا ہوتا ہے اور تیر و تُپنگ کے توار غلام قوموں کے لیے خوبصورت موسیقی اور آزادی کے گیت ہیں، جنگیں بقا ہیں، یہ زندگی کا احساس دلاتی ہیں مگر جنگیں جیتنے کے لیے ذہنوں میں دشمن کے خوف کو ہرانا ہوتا ہے۔ دنیا کی سب سے خطرناک چیز خوف ہے جہاں یہ بقا کا ضامن بنا وہیں یہ بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوا۔ خوف نے انسان کو محدود کیا تاکہ اس کے وجود کے ختم ہونے کا امکان نہ ہو مگر جنگوں میں ایک قوم کے ذہنوں میں دشمن کا خوف دشمن کی طاقت اور شان و شوکت کی خودساختہ بلند عمارت کو مزید مضبوط کرتا ہے۔ سامراج خود کو غلاموں کا مذہب سمجھتا ہے اور اُن کی تقدیر کے فیصلے کرتا ہے اس لیے وہ طے کرتا ہے کہ خوف کو نفسیاتی ہتھیار بنا لیا جائے اور غلام قوم کے افراد میں خوف کو ایسے داخل (implant) کرتا ہے کہ یہ بلکل خوردرو پودے کی طرح بڑھے اور پھلتا پھولتا رہے اور خوف آہستہ آہستہ معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کرتا رہے۔ یہ infectious وائرس کی طرح پھیلتا ہے
پھرردِعمل میں قومیں دشمن سے خوفزدہ ہو کہ بھاگتی ہیں وہ سمجھتی ہیں کہ دوڑ کے یا بھاگ کے اپنے آپ کو یا قوم کے وجود کو بچایا جا سکتا ہے اور پھر سامراج تو چاہتا ہی یہی ہے وہ حالات سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اطمینان میں آتا ہے اگر نفسیات کے رو سے دیکھا جائے تو اصل میں سامراج ایک نفسیاتی مسئلے کا شکار ہوتا ہے کمزور کے درد سے خوش ہوتا ہے اِسے ایپی کیریکسی (Epicaricacy) کہتے ہیں۔
اگر افریقہ کی مثال لیں جو غلامی کی بد صورت تاریخ کا اولین باب ہے جس کے جنگجو اور سورماؤں نے ثابت کیا کہ وہ اپنی دھرتی کے رکھوالے ہیں وہ افریقہ کا black gold ثابت ہوئے۔

مگر اِن نجات دہنداؤں کے آنے سے پہلے اگر دیکھتے ہیں تو افریقہ کے سمندری ساحل پہ سامراج کی دکانیں ہیں غلاموں کی منڈی گرم ہے خوف سے لرزاں کالے جسم سفید سائے سے ڈر کے بھاگ رہے ہیں۔ افریقہ کے جنگل اپنے لوگوں کو آنچل میں چھپا رہے ہیں اور خطرات کے سیاہ بادلوں نے اندھیرا کیا ہوا ہے سامراج نے افریقہ کو اجالے اور روشنیوں سے محروم کر دیا۔ بچے خواب دیکھنے سے ڈرنے لگے اور بڑے راتوں کے شب خون کی وجہ سے سونے سے خوفزدہ ہوتے تھے کہ صبح اُٹھ نہیں سکیں گے۔ کچھ وہاں کے اپنے باشندے تھے جو دن میں اپنے لوگوں کو بیچ رہے تھے تاکہ رات کو شراب کا بندوبست ہو سکے اپنوں اور غیروں کے خوف نے افریقہ کی زمین کو نجات نہیں دلائی۔ تاریخ گواہ ہے بھاگنا بقا نہیں ہے۔ جب خوف سے لرزاں وجود سُن ہوگئے تو دماغ ردِعمل یعنی جنگیں ترکیب دینے لگے کہ دشمن کے سائے سے بچنے کے لیے اُس کے وجود کو پارہ پارہ کرنا ہوگا اور اس کے لیے دو چیزوں کا خیال رکھنا ہوگا، ایک ہتھیار اور دوسرا دشمن پہ وار یعنی دشمن کا مقابلہ صرف اُسی ہتھیار سے ممکن ہے جس کا استعمال قبضہ گیر خود کرچکا ہے یعنی خوف۔ وہ آگاہ ہو گئے کہ دشمن کو شکست دینے کے لیے اس کے ہتھیاروں کا اندازہ اچھے سے ہونا چاہیے۔ دوسرا وار تو وہ دشمن کے حملوں سے زیادہ شدت والا ہونا چاہیے اب افریقہ کے جیالے دشمن کو ڈرانے لگے اس کا مقابلہ کرنے لگے انہوں نے پہلے ذہن میں خوف سے نجات پائی اور پھر حقیقت میں سامراج کے گندے وجود سے۔ جنگیں پہلے ذہنوں میں لڑی جاتی ہیں پھر جوان میدانِ جنگ میں اترتا ہے اور اس کے لیے خوف کے بد صورت وجود سے چھٹکارا لازمی ہوتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔