2023 کی پہلی ششماہی کے دوران بلوچ مسلح تنظیموں کی جانب سے کل 285 واقعات کی ذمہ داری قبول کی گئی۔ ان واقعات میں ہلاکتوں، زخمیوں و املاک کو نقصان پہنچنے کے باعث اہم اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے 29 جنگجوؤں کے نقصانات کیساتھ حیران کن طور پر 146 حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فورسز کے 137 سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ مزید برآں بی ایل ایف کی کارروائیوں میں 57 سے زیادہ افراد زخمی اور املاک کو بھی بھاری نقصان پہنچا۔ بی ایل ایف نے 10 اضلاع میں کل 50 علاقوں میں کارروائیاں سرانجام دی جس میں کیچ، پنجگور اور آواران اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی۔ بی ایل ایف اس دوران واحد تنظیم تھی جس نے ضلع گوادر میں حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جو کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا ایک اہم مرکز ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے سال کی پہلی ششماہی کے دوران 118 حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان حملوں کے نتیجے میں 98 سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوئی جن میں پاکستان فوج و دیگر عسکری اداروں کے اہلکار شامل ہیں، جبکہ 116 سے زائد اہلکار زخمی ہوئے اور 80 سے زائد حملوں میں املاک کے نقصانات کی اطلاع ملی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بی ایل اے کے شہری حملے دیگر تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ تھے جبکہ بی ایل اے نے 17 اضلاع میں پھیلے ہوئے 54 علاقوں میں کارروائیاں سرانجام دی۔ ان میں ‘فدائی’ حملوں سے لیکر مرکزی شاہراہوں پر ناکہ بندی تک شامل تھے۔ صرف جون میں، بی ایل اے نے دو بار مرکزی شاہراہ کو بلاک کرکے متعدد ٹرکوں کو آگ لگا کر کوئلہ کان نکالنے کے کاموں میں خلل ڈالا۔ بی ایل اے نے بولان اور کوئٹہ کے علاقوں میں متعدد چھاپوں کی بھی ذمہ دار تھی۔ تنظیم کو اس عرصے کے دوران چار جنگجوؤں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جن میں مجید بریگیڈ کی ایک خاتون رکن بھی شامل تھی جس نے ‘فدائی’ حملہ کیا۔
باقی مسلح گروپوں، یعنی بلوچ نیشنلسٹ آرمی، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور بلوچ ریپبلکن گارڈز نے کل 21 الگ الگ حملوں کا دعویٰ کیا۔ ان واقعات کے نتیجے میں 19 سے زائد ہلاکتیں اور 6 سے زائد املاک کو نقصان پہنچا۔ یہ تنظیمیں 8 اضلاع کے 10 علاقوں میں سرگرم رہیں۔ ان کے زیادہ تر حملوں کی شدت کم تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تنظیموں میں سے کسی کو جانی نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مجموعی طور پر ان گروپوں نے 2023 کی پہلی ششماہی کے دوران کل حملوں کا تقریباً 8 فیصد حصہ لیا۔
بلوچ مسلح تنظیموں کی سرگرمیوں نے بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ذمہ داریوں، ہلاکتوں اور املاک کو پہنچنے والے نقصانات کی بڑی تعداد خطے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کو درپیش مسلسل چیلنجوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان مسلح تنظیموں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے مختلف حربے، جن میں روایتی حملوں سے لے کر رکاوٹیں ڈالنے والے اقدامات شامل ہیں، صورتحال کی پیچیدگی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کے اندر جنگجوؤں کا نقصان بھی تنازعہ کی شدید نوعیت کو اجاگر کرتا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر ان مسلح گروہوں کی ابھرتی ہوئی حکمت عملیوں اور سرگرمیوں کو قریب سے مانیٹر کرنا اشد ضروری ہے تاکہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھا جاسکے۔