بلوچ خواتین کی قربانیاں ۔ کوہی بلوچ

413

بلوچ خواتین کی قربانیاں 

تحریر: کوہی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کے اندر جتنے بھی مظلوم قومیں ہیں ان سب کے لئے شارل، سمو اور باقی بلوچ عورتیں مثال ہیں۔ جب بھی دنیا کو کوئی جنگ کی ضرورت پڑے تو وہ سمو اور شارل کے مثالیں اپنے قوم کی عورتوں کو دینگے وہ اپنے عورتوں کو شاری اور سمعیہ کے کتابیں پڑھاتے رہنگے جب ان کے عورتیں پست حوصلے ہو جائے تو ان کو بھی سمو کی کہانیاں سناتے ہونگے جو بھی قومیں سیاسی، گوریلا جنگوں میں مصروف ہیں۔ ان سب کے لیے “بلوچ عورتیں ” ایک نظریہ ہیں، کیونکہ ان سب کو بلوچ عورتوں کی چیپٹر پڑھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔

دنیا کے مختلف لوگ بلوچ نڈر بہنوں کے لیے کتابیں اور فلمیں بنا کے ان کی مثالیں اپنی اپنی قوموں کو اور آنے والے نسلوں کو دینگے کہ یہ وہ بلوچ عورتیں تھے جو بلوچستان کی آزادی کے لئے قربانیاں دے چکے تھے۔

چونکہ ہم دیکھ سکتے ہیں ایسے بہت سارے لوگ ہیں۔ وہ دنیا کے لئے مختلف نظریہ بن چکے ہیں یا کہ دنیا کے لئے وہ ایک راہ بن کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے اوپر بہت سارے کتابیں اور فلمیں بھی بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ جو ان کے فلسفے تھے یا ان کے جدوجہد تھے وہ دنیا کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوئے تھے۔ چاہے وہ ڈاکٹر چے ہو، لیلی خالد ہو، بھگت سنگھ ہو،فینن ہو یا کہ کامی کازیوں ہو جب بھی دنیا کو یا کہ ہمیں مسئلہ پیش آتے ہیں۔ تو ہم ان جیسے لوگوں کے کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور جو ہمارے بلوچ عورتیں ہیں، یہ بھی دنیا کے لئے ایک نظریہ، ایک فلسفہ پیش کرتے ہیں یہ صرف باغی نہیں ہیں یہ صرف گوریلا جنگجو نہیں ہیں یہ ایک راستہ پیش یا کہ ظاہر کرتے ہیں۔ ہمارے لئے اور پورے روئے زمین کے لئے۔

ارنسٹو چی گویرا اپنے کتاب “گوریلا جنگ” میں لکھتا ہے (خواتین کا کردار) کے بارے میں خواتین انقلاب کے عمل میں غیر معمولی حد تک اہم کام سر انجام دے سکتی ہیں۔اس حقیقت کی اہمیت کو واضح کرنا ضروری ہے کیونکہ زیر قبضہ علاقوں کے لوگ زیادہ تر عورتوں کو کم اہمیت دیتے ہیں۔عورتوں اور مردوں کے کام کی حد بندی کر کے ان میں واضح فرق رکھتے ہیں۔خواتین انتہائی دشوار کام سر انجام دے سکتی ہیں،مرد سپاہی کے کندھے سے کندھا ملا کر لڑسکتی ہیں اور جیسا کہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ سپاہیوں میں جنسی محرکات کا باعث بنتی ہیں، یہ بلکل غلط ہے اگر چہ عورت جسمانی لحاظ سے مرد سے کمزور لیکن ایسا ہونے کے باوجود بھی وہ مردوں جتنی ہی سختیاں برداشت کرسکتی ہیں اور باقاعدہ لڑائی لڑسکتی ہے کیوبا کی جنگ آزادی میں خواتین کا انتہائی اہم کردار رہا ہے۔

بے شک سپاہی خواتین کی تعداد کوئی زیادہ نہیں،لیکن انھیں دیگر کاموں، سپاہیوں اور مقامی آبادی کو پڑھا سکتی ہیں بچوں اور نوجوانوں کو انقلابی نظریات سے آگاہ کر سکتی ہیں اور ان کی تربیت کر سکتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر لڑائی میں بھی حصہ لے سکتی ہیں۔

اور ہمیں یہ فخر ہیں کہ ہمارے بلوچ خواتین ہمارے مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں چاہے وہ سیاسیت کا میدان ہو یا کہ گوریلا جنگوں کی میدان ہو وہ ہر خوشی و تنگ دستی میں ایک ساتھ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔