بلوچ تعلیم یافتہ طبقے میں نوآبادیاتی نفسیات
تحریر: بالاچ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ویسے تو نوآبادکار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ غلام قوم کو علم، شعور و آگاہی سے دور رکھے تعلیم سے دور رکھے اسی وجہ سے آج بلوچستان میں تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں اگر ہیں بھی تو اُن میں بینکنگ ایجوکیشن سسٹم رکھ کر طُلباء کو ایک ایسا نصاب پڑھایا جاتا ہے جس میں طُلباء کی تخلیقی قوت، سوچ وبچار کو مفلوج ہو جائے اور طرح طرح کے مسائل پیدا کر کے اپنی قبضہ گیریت کو مظبوط کرتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو بلوچستان میں کھانے کے لیئے آٹا اتنا سستا نہیں ملتا جتنا منشیات ٹکوں کے داموں میں بِک رہا ہے نوجوانوں کو منشیات میں مبتلا کر کے بلوچستان کے نوجوانوں کو تباہ کیا جا رہا ہے
بینکنگ ایجوکیشن سسٹم سسٹم کے طرز کے نصاب میں اگر کوئی نوجوان ڈگری مکمل کر بھی لے تو اُس کو روزگار کے لیئے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ سوچے سمجھے سازش کے تحت معاشی قتل کیا جا رہا ہے۔
ایرانی سامان کی سمگل پر پابندی لگائی جاتی ہے جس سے ہزاروں کے بلوچوں کے چولہے جلتے ہیں لیکن منشیات بارڈر سے آرمی کی نگرانی میں لائی جاتی ہے اور اُس پر پابندی نہیں لگائی جاتی کیوں بارڈر پر پنجابی کرنل کروڑوں بھتہ لیتا ہے اور منشیات سے بلوچ نوجوان تباہ ہوتے ہیں۔
روزگار کا فقدان اس لیئے کیا جاتا ہے کہ غُلام قوم بھوکا رہے اور آخر میں وہ اُن کو آرمی اور ایف سی میں بھرتی کر سکیں اور بلوچ کو بلوچ کے سامنے لا کھڑا کر سکیں۔
اگر کوئی نوجوان اپنی زندگی کی جمع پُنجی لگا کر اچھے تعلیم اداروں سے تعلیم حاصل کرتے ہیں تو قبضہ گیر ایک اور چال چلتا ہے
نوجوانوں میں طاقت کے حصول کا حوس پیدا کرتا ہے جو سی ایس ایس اور پی سی ایس ہے۔
قبضہ گیر کی اس چال کو کامیاب بنانے کیلیئے جانے یا انجانے میں ہمارے نامور اساتذہ، پروفیسر، وکیل، مصنف بھرپور حصہ لے رہے ہیں
سی ایس ایس پہ سیمینار منعقد کیئے گئے تحریریں لکھی گئیں
نوجوان کو قوم و دھرتی کے مسائل و درد کا احساس دلانے کے بجائے گاڑی، بنگلہ، گارڈ اور معاشرے میں واہ واہ کے قصے سنائے گئے
اس طرح نوجوان میں انفرادی سوچ پروان چڑھی۔
اگر دیکھا جائے تو سی ایس ایس طاقت کے حصول کے سوا کُچھ بھی نہیں۔
اِن سیمینار کی وجہ سے آج کا پڑھا لکھا نوجوان سی ایس ایس کر کے استحصالی نظام کے ساتھ شامل ہو کر کرپشن کر کے قوم کو لوٹنا چاہتے ہیں اور ایسی طاقت جس میں اِن کو کوئی روکنے والا کوئی نہ ہو۔
اِن نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ آپ کہ آپ سی ایس ایس کیوں کرنا چاہتے ہیں تو وہ ہزاروں جواز, مثال دے کر کہتے ہیں کہ اچھے پوسٹ پر آکر قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ جو خود اور قوم کو دھوکہ دینے کے علاوہ کُچھ بھی نہیں۔
اِسی طرح اگر دیکھیں قوم پرست طُلباء کی تنظیم میں اہم عہدے پر رہنے والے آج اچھے پوسٹ پر بیٹھ کر قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں؟ ایسا کیا کارنامہ سر انجام دیا جس سے بلوچ قوم کو اجتماعی فائدہ ملا ہو؟ بلکہ سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر قوم کے وسائل لوٹنے میں برابر کے شریک ہیں۔
یہی سیمینار منعقد کرنے والے فیسبک پر نوجوانوں کو سی ٹی ڈی میں بھرتی ہونے کی تلقین کرتے ہیں اور سی ٹی ڈی کی تیاری کے لیئے کلاسز کا آغاز کرتے ہیں وہی سی ٹی ڈی جو آج بلوچ نسل کُشی میں براہ راست ملوث ہے۔
جس نے شہزاد دہوار، وسیم تابش جیسے ہمارے کئی پیاروں کو فیک انکاونٹر میں شہید کر چُکے ہیں۔ جو بلوچ ماوں اور بہنوں کو اپنے ٹارچر سیلوں میں اذیت دیتے ہیں اِن ٹارچر سیلوں میں آج بھی ہمارے ہزاروں بھائی، بہن، لاپتہ ہیں۔
یہ نام نہاد اساتذہ خود کو بلوچ تو کہتے ہیں لیکن جانے یا انجانے میں بلوچ قوم کے گنہگار ہیں جو دشمن کی فوج کو طاقتور بنا کر اپنی اِن کاموں کو بلوچ طُلباء کی خدمت کا نام دیتے ہیں۔
اِن لوگوں نے اپنی طرف سے ایک تھیوری بنائی ہوئی ہے کہ مشینری میں جا کر مشینری کو ختم کریں گے۔ یہ تھیوری نہ ہم نے کبھی تاریخ میں پڑھا نہ کہ دیکھا۔ اس طرح تو بلوچ کئی دہائیوں سے دشمن کی مشینری میں کام کر رہے ہیں جو خود کو قوم دوست بھی کہتے ہیں انہوں نے آج تک مشینری کو کتنا نقصان پہنچایا۔
صرف اپنی خود غرضی، لالچ ، خوف کو ہزاروں جواز پیش کر کے چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں اب نوجوان کو سمجھنا ہوگا کہ یہ بڑی پوسٹ، سی ایس ایس جو قبضہ گیر نے ہمارے زہن میں ڈالا ہے اس کو سمجھ کر انفرادی سوچ سے نکل کر اجتماعی مفادات کا سوچنا ہوگا۔
دنیا کی محکوم اقوام نے بڑی پوسٹ، یا مشینری کے اندر جاکر غُلامی سے نجات حاصل نہیں بلکہ کتابوں کو دوست بنا کر علم و شعور ، سیاسیات، فلسفہ، ٹیکنالوجی، نفسیات کے علم حاصل کر کے قبضہ گیر کی نفسیات، چال، مکاری اور پروپگینڈہ کو بڑے غور و فکر سے سمجھ کر تشدد کا تشدد سے دیا تب جا کر قبضہ گیر اپنی دھرتی سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔