بلوچستان کی ہوائیں تمہیں سلام پیش کرتی ہیں
تحریر: کامریڈ علی ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جتنے بھی قابض کے خلاف تحریکیں چلیں ہیں، اس میں خواتین کا ایک خاص رول رہا ہے چاہے وہ مذہبی تحریکیں کیوں نہ ہو بلوچ قومی تحریک میں خواتین کا ایک خاص کردار ہے بلوچ تاریخ میں بانڑی بلوچ، بی بی گل بلوچ، زرینہ مری، بانک کریمہ بلوچ، بانک فرزانہ بلوچ، حوران بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، شیر زال بلوچ بی بی مہتاب رئیسانی بلوچ کا ایک خاص کردار ہے ۔لیکن بلوچ تحریک اب جدید نیشنلسٹ تحریکوں میں شمار ہوتا ہے آج بلوچ کا ہر طبقہ چاہے وہ طالب علم ہو ڈاکٹر ہو انجینیئر ہو کسان ہو سب اپنے بساط کے مطابق قربانیاں دے رہے ہیں۔
بانک سمعیہ قلندرانی کی قربانی ایک انتقامی کاروائی نہیں ہے بلکہ وہ بلوچ نیشنلزم اور بلوچ وطن کا ایک وژن سے لیس ایک فکری، نظریاتی، کامریڈ تھی جس نے شاری بلوچ کے فلسفے کو آگے بڑھایا ایک نیا انداز دیا بلوچ تحریک کو ایک نئی سمت بھی آپ کہہ سکتے ہیں۔
دنیا کی ترقی میں خواتین کا ایک کردار ہے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ زراعت کے پیشے کو ایجاد کرنے والا بھی عورت ہی تھی۔ انقلاب روس میں بھی خواتین کا ایک خاص کردار رہا ہے مطلب جتنے بھی انقلابات رونما ہوئے ہیں ان سب میں خواتین کا کردار رہا ہے بلوچ قومی تحریک اب نیا رخ کے جانب جارہا ہے پہلے بلوچ خواتین اپنے لاپتہ لوگوں کے لیے نکلتی تھیں لیکن اب باقاعدہ طور پر تحریک میں شامل ہورہی ہیں اور ایک انقلابی عمل ہے ۔
بلوچستان کے وسائل کا تیزی سے استحصال ہورہا ہے اب بلوچ ہر وہ راستہ استعمال کرے گا جس سے قومی وسائل کی لوٹ مار روک سکے کیونکہ دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام بہت مضبوط ہے اور اس کے اثرات بلوچستان پر پڑرہے ہیں چین اب ایک سامراجی ملک بن چکا ہے۔ چین کے میگا پروجیکٹس کو بلوچستان میں لانے والے پنجابی اسٹبلشمنٹ ہے اور اس کے ساتھ کچھ مقامی ضمیر فروش بلوچ بھی ہیں جو براہ راست بلوچ نسل کشی اور استحصال میں ملوث ہے اور سامراجی قوتوں کو ایندھن فراہم کررہے ہیں۔
سامراجی ریاست ہر وہ حربہ استعمال کررہا ہے جس سے اس کے مفادات حاصل ہو کھبی مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیا جاتا ہے لیکن اب حق دو تحریک کے نام پہ بلوچوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔ بلوچ قومی تحریک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سرداری نظام بھی ہے ایک طرف مذہبی شدت پسندانہ سوچ اور دوسری طرف سرداری نظام ان نظریات سے ہمیں نکلنا ہوگا ان دو پہلووں پہ ہمیں بہت کام کرنا ہوگا تب جاکر ہم ایک عظیم مقصد کو حاصل کرنے کامیاب ہونگے اس کے لیے بلوچ سیاسی اتحا د کی ضرورت ہے ۔ہر سیاسی بلوچ کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ قوم اور قومی تشخص اور وطن کے دفاع کے لیے جدوجہد کرے۔ سمعیہ اور شاری اب ایک نظریہ بن چکا ہے۔یہی بلوچ قومی تحریک کی 75 سال کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔