بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ ماما قدیر بلوچ

183

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5110 ویں روز جاری رہا۔

آج پنجگور سےسیاسی کارکنان علیم شنبے بلوچ، مجاہد بلوچ، اختر بلوچ اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ قابض ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچ آبادیوں پر آپریشن کا آغاز کرچکا ہے ریاست پاکستان نے بلوچستان میں اپنی حکمت عملی بدلتے ہوئے بلوچ نسل کشی کو اور تیز کردیا ہے اب قابض ریاست نے نہ صرف بلوچوں کو کھلے عام قتل کرنا شروع کردیا ہے بلکہ اپنے ان مکروہ عزائم کو جواز بخشنے کے لئے منصوبہ بندی کے تحت پروپیگنڈا بھی شروع کردیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچ نسل کشی کو تیز تر کرکے جدوجہد کو کمزور کرنے کی سعی کرنا ہے اپنے ان نسل کشی پالیسوں کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ دن تمپ سے دو نوجوانوں کو جبری اغوا کیا جن میں روف ولد مراد محمد اور پیر بخش بلوچ کو پنجگور کے علاقوں سے اس کے علاوہ مستونگ، قلات، کوہلو، ڈیرہ بگٹی بلکہ بلوچستان کا کوئی جگہ یا علاقہ نہیں جہاں سے لوگوں کو جبری لاپتہ کیا گیا۔ نوجوانوں خاص کر تعلیم یافتہ طالب علموں کوجبری اغوا کر کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سامراجی فورسز نے خضدار کے رہائشی نوجوان کو کوئٹہ اغوا کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچ قومی جہدوجہد کی پذیرائی سے گھبرا کر بلوچستان میں فرقہ واریت، مذہبی انتہاپسندی کو سامنے لا رہی ہے تاکہ بلوچ عوام کی قومی جدوجہد کو کاونٹر کرنے کے لئے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کاروائیوں کے بہانے بلوچ قومی تحریک کو کمزور کیا جاسکے لیکن دنیا اس بات سے بخوبی با علم ہے کہ مذہبی انتہا پسندی کی تشکیل کو سامراجی پاکستان اور اس کے ادارے کی کار ستانیاں رہی ہیں۔