بلوچستان ما بعد سمو و شاری ۔ میرک بلوچ

452

بلوچستان ما بعد سمو و شاری 

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک میں شاری اور سمعیہ کی فدائی کاروائیاں تاریخ میں انمنٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں اور جابر ریاست کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہے۔ کوئی کتنی ہی تاویلیں پیش کرے اور کوئی کتنا ہی معزرت خواہانہ بہانے بازیاں کرے لیکن یہ اب حقیقت بن چکی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک ان جانثار بہنوں کی بدولت اک نئی سمت اختیار کر گئی ہے۔ شاری اور سمعیہ نے اپنی تمام تر شعوری کوشش کو اجاگر کیا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو ان کا پس منظر کا جائزہ ضرور لیں۔ دونوں اعلی تعلیم یافتہ باشعور اور انتہائی بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی یقین تھا کہ جابر اور ظالم قبضہ گیر کو باور کرانے کے لیے کہ بلوچ اپنی مادر گلزمین کو ہر حال میں آزاد کراکے عالمی برادری حصہ بنیں گی۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ ان دونوں خاموش فدائین نے نا کبھی نمود و نمائش کی نا کبھی لمبی تقریریں کیں نا اس ریاست کے اداروں سے اپیلیں کیں نا پریس کلبوں کے سامنے چیخ و پکار کی بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ دیکر یہ باور کرایا کہ یہ خونخوار ریاست اور اس کے حکمران جنہوں نے ہزاروں بلوچوں کو شہید کیا۔ جنہوں نے ہزاروں نوجوان فرزندوں کو لاپتہ کیا ان کو جواب بھی اس یقین کے ساتھ دینا ہوگا جو زندہ اور باوقار قومیں اپنی آزادی کے لیے وہ سب کچھ کرسکتی ہے جہاں دشمن کی سوچ تک نہیں جائیگی مجید برگیڈ کے فدائین ان کے سوچ سے بھی آگے بڑھ کر اپنی تمام تر شعور اور آگاہی کے ساتھ دشمن کو ہزاروں زخم ہزاروں صدمات پہنچا سکتے ہیں۔

بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے بیرون ملک بیٹھے بلوچ آزادی پسند سفیر عجیب و غریب منتق و دلیل پیش کررہے ہیں لگتا یوں ہے یہ بیچارے تھک چکے ہیں یا پھر یہ جابر ریاست کو یقین دلا رہے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں، اگر یہ نام نہاد سفیر واقعی تھک چکے ہیں یا پھر اس جابر ریاست سے کمپرومائز کرنا چاہتے ہیں تو ہماری ان سے گزارش ہے کہ بی این ایم جیسے عظیم قومی پلیٹ فارم کو استعمال نہ کرے کیونکہ بی این ایم ہمارے عظیم شہید قائد اور عظیم شہیدوں کی ترجمان اور بلوچ قوم کی امنگوں کا مرکز ہے لہذا یہ نام نہاد سفیر اپنے پژمردہ خیالات کے اظہار کے لیے کوئی اور پلیٹ فارم استعمال کریں کیونکہ شہیدوں کے وارث بلوچ قومی شہیدوں کے اس پارٹی کو پراگندہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی ۔ بلوچ قوم پھر ان نام نہادوں کا سخت احتساب کرے گی۔

14 سال کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد سمی دین بلوچ 28 جون کو اپنی لکھی ہوئی تقریر میں کھل کر مزاحمت کا اظہار کر رہی تھیں وہ کہہ رہی تھی کے اس کا اظہار مجھے بہت پہلے کرنی چاہئے تھا اور با آواز بلند اپنے مزاحمت اور باغی ہونے کا اظہار کررہی تھی یہ جذبات اور احساسات آپ نے محسوس کئے نام نہاد سفیر۔

عیدالاضحی کے موقع پر شال میں ہماری بہن سعیدہ بلوچ نے اپنے درد و الم سے بھرپور جذبات اور احساسات کے ساتھ شاری اور سمعیہ کی عظیم قربانی کو سراہتے ہوئے بھگت سنگھ کو یاد کیا اور کہا کہ ان بہرو کے کانوں کو کھولنے کے لیے ایسی ہی دھماکوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ آپ نے ان احساسات کو محسوس کیا نام نہاد سفیر۔

ہماری عظیم بہن کریمہ بلوچ پر امن جدوجہد کررہی تھی لیکن اس نام نہاد ریاست کے حکمران بلوچ خواتین کی جدوجہد سے اتنے خائف ہیں کہ سازشیں کر کے بیرون ملک میں ہمارے عظیم بہن کو شہید کروایا, کیا آپ اس المناک واقعہ کو بھول گئے نام نہاد سفیر۔

عالمی تحریکوں کا اگر ہم جائزہ لیں تو خواتین کی عظیم اور بھرپور شمولیت نے ان تحریکوں کو کامیاب بنا دیا۔ اور بلوچ خواتین اس بات کا ادراک اچھی طرح رکھتی ہے کہ خواتین کی شمولیت سے ہی بلوچ قومی تحریک اپنی منزل کو پاسکے گی۔ بلوچ خواتین جانتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے سوال آپ نہ کریں بلکہ بلوچ قوم آپ سے سوال کرے گی کہ اتنے سالوں میں بیرون ملک رہکر آپ نے سفارتی کام کیا انجام دئے سوائے متنازع باتوں کے آپ کی کارکردگی کیا ہے ان سوالوں کا جواب آپ کو بلوچ قوم کو دینا ہوگا۔ ورنہ تاریخ اور بلوچ قوم أپ کو معاف نہیں کرے گی نام نہاد سفیر۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں