بدلتے پینترے ۔ مہر شنز خان بلوچ

274

بدلتے پینترے 

تحریر: مہر شنز خان بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

تاریخ کے پنوں کو دل و دماغ کی آنکھوں سے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگ ایک پر خطر کھیل ہے، یہ جنگ ہی ہے کہ نتائج کا تعین کر کے اپنی بقاء کیلئے کی جاتی ہے۔ جنگ کا انتخاب شاید ہی کوئی لاشعور بلا کسی وجہ کے کریگا، لیکن اگر جنگ کرنا لازم ہو اور بقاء کی کوئی دوسری ہموار راہ دکھائی نہ دے تو شعور کا تقاضہ ہے کہ وہ بندوک کو تھام کر دشمن کی طرف اسکی نلی کا رخ موڑ دے۔ جنگ کا مقصد اپنے مقصد اور حدف کا اصول ہوتا ہے نہ کہ ابدی جنبش میں گر کر موت کے کھیل کا تماشہ کرنا ہوتا ہے۔ تو جنگ کا آغاز تو قبضہ گیر ریاست نے اسی دن کیا جب وہ اپنی ٹینکوں اور بمبوں سے لیس ریاست قلات کی در و دیواروں کو پامال کرتا ہوا بلوچ قوم کو زیر تسلط بنانے کی ناکام کوشش کیا گیا، حالانکہ بلوچ سرزمین قبضہ ضرور ہوا لیکن مفتوحہ ہونے کا اعزاز دشمن کو بلوچ سپوتوں نے کبھی ہونے نہیں دیا۔

پانچویں فوجی آپریشن کا نتیجہ ہے کہ بلوچ ہر دور میں اپنی جنگی غلطیوں اور دشمن کی چالبازیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتا چلا آرہا ہے۔ شہزادہ کریم بلوچ کی سربراہی میں کی جانے والی شورش کو شاید دنیا ایک چھوٹی اور نہایت ہی کم مدت والی جنگ تصور کرے لیکن وہ ایک طویل القامت والی جنگ و تحریک کی بنیاد تھی جسے بعد میں بابو شیرو مری، نواب خیربخش اور میر محمد علی تالپور جیسے بلوچ فرزندوں نے ملک گیر مزاحمت کی شکل دیکر بلوچ تحریک کو ایک نہی جلا بخشی۔ شاید انیس سو تریسٹھ اور انیس سو تہتر کی شورشیں بلوچ آزادی کو لینے میں ناکام ہوئے لیکن ان تحریکوں اور ادوار نے بلوچ کو نفسیاتی (psychologically) طور پر بہت کچھ دیا۔ بلوچ اپنے دشمن کے جدید اصلاح اور نئے دور کے ساتھ ساتھ اپنے جنگی حکمت عملیوں میں بھی رفتگی سے تبدیلیاں دیکھانے لگے، اپنے بے سر و سامانی کی حالت میں دنیا کی ساتویں بڑی طاقت اور غلیظ ترین جنگی اصولوں والے (most immoral) دشمن سے جب پالا پڑا تو بلوچ مسلح تنظیموں سے لیکر گراؤنڈ پہ موجود سیاسی تنظیموں نے اپنے حکمت عملیوں میں خاطر خوا تبدیلی لاتے ہوے دشمن کے ساتھ بھی نفسیاتی جنگ کا آغاز کیا۔ ویسے گوریلہ جنگ کا وجود ہی ایک نفسیاتی حربہ ہے اپنے دشمن کے خلاف لیکن وقت فوقتا بدلتے پینتروں نے دشمن کو ایک نفسیاتی مریض بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن کبھی عورتوں کو گھروں سے اٹھاتی ہے، کبھی ماؤں کے سامنے انکے لخت جگروں کو آٹھ آٹھ گولیاں داغ کر اپنے سینے کو تپکی دیکر پاک فوج زندہ باد کے نارے بلند کرتے ہیں تو کھبی ماھل جیسی معسوم بیوہ کو انکے بچوں کے سامنے اٹھا کر اپنے عقوبت خانوں میں پینک دیتی ہے اور جب بلوچ شیرزال انہی ظلم و زیادتیوں کے سدباب کیلئے دشمن سے نبردآزما ہوتے ہیں اور بارود سے لپٹی قہر بن کر ان پہ ٹوٹ پڑھتی ہیں تو دشمن کو بلوچ روایات اور عورتوں کی مظلومیت یاد آتی ہے۔ دشمن کو نفسیاتی شکست دینا لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر حملہ نئی نوعیت کا اور خطرناک شدت کے ساتھ نمودار ہورہی ہیں۔

اگر دشمن کامی کازی اور ویانگ 2 جیسی ڈرون طیاروں سے لیث خود کو طاقتور سمجھتا ہے تو بلوچ بھی اپنی بساط کے مطابق نئی اور شدت کے ساتھ حملوں میں اپنے پینترے اور چالبازیاں بدلتے رہیں گے۔ یقینا یہ ان جنگی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے کہ دشمن جلد اپنی متعین شدہ زمیں (پنجاب) میں واپس دھکیل دیا جائیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔