ایک طرف بلوچوں کا قتل عام اور دوسری جانب مذاکرات کا نام لیا جارہا ہے ۔ ماما قدیر بلوچ

132

لاپتہ بلوچوں کی بازیابی کے لئے بھوک ہڑتالی کیپ کو 5107 دن ہوگئے، مستونگ سے بلوچ کونسل کے سابق صدر خلیل احمد نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم کے دکھ درد اور صورت حال کو دیکھ کر چاہیے کوئی سنگدل انسان اپنے آنسو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود بھی برداشت کئے جا رہی ہے کیونکہ غلام قوم اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ہے تاہم بے بس اور غلام بلوچ قوم نے جدوجہد کو اپنا کر دنیا کو یہ پیغام روز اول سے دے دیا کہ ہم غلامی کی یہ طوق کو اپنی گردن سے نکالنے کے لئے ہر قوت جدوجہد کرینگے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جدوجہد نے نہ صرف بلوچ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا بلکہ بلوچوں کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کر ایک روشن تاریخ رقم کی ہے دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں بھی قومی چلیں ان کی کامیابی عوام کی شرکت سے ممکن ہوئی بلوچ جدوجہد کو منزل تک لے جانے اور قومی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھی عوامی حمایت اور تائید ضروری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاست شروع دن سے یہی پروپگنڈہ کر رہا ہے کہ چند بلوچ ہیں ہم ان سے مذاکرات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایک طرف بلوچ کا قتل عام اور لاشوں کو مسخ کر کے ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں اور دوسری جانب مذاکرات اور ہتیھار پھینکنے اور غلامی قبول کرنے کا درس دیا جارہا ہے۔