انسانوں کی منڈی
تحریر: نذر بلوچ قلندرانی
دی بلوچستان پوسٹ
میری زندگی کا لگ بھگ یہ پہلا بلدیاتی انتخاب تھا جہاں سرکاری مشینری اور نواب صاحب مدمقابل تھے اگر آپ ماضی پر نظر ڈالیں تو اس سے قبل اس طرح کا مقابلہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ ماضی میں اگر کوئی ناراض بلوچ لیڈر جہل وطنی ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہوتا تو اسے اسٹبلشمنٹ اپنے قوت کے ذریعے ہم پر مسلط کرتا تھا یا پھر اپنے اردگرد میں سے کوئی وفادار دیکھ کر انہیں سلیکٹ کیا کرتا تھا نوجوانوں میں ابھرتی ہوئی شعور اور تسلسل جہدوجہد کے بعد اسٹبلشمنٹ کو اپنے کرتوتوں پر نظر ثانی کرنا پڑا ہے دوسری جانب نواب صاحب نے بھی ماضی کی طرح اسٹبلشمنٹ کا سہارا لینے کے بجائے عوامی طاقت سے سرکاری مشینری کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا یقیناً کوہلو کی تاریخ میں یہ بہت بڑی تبدیلی تھی جہاں عوام کو اپنے ووٹ کے ذریعے بلدیاتی انتخابات میں اپنا نمائندہ منتخب کرانے کا موقع مل گیا۔
جیسے ہی بلدیاتی انتخابات شروع ہوئے سرکاری مشینری نے انسانوں کی منڈی لگا دی جیسے ہم مال منڈی میں جاکر مال لیکر دام دیتے ہیں بلکل اسی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی جس کا جنتا اوقات تھا انہیں اُتنا دیا گیا عام ووٹ سے لیکر کونسلرز تک خریدے گئے جہاں ایک عام شخص کا ووٹ بہت بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتی تھی بدقسمتی سے انہوں نے بھی اپنا ووٹ چند پٹرول لیٹر لے کر فروخت کردیا جو آنے والی نسل کو بارود رکھ کر تباہ کرنے کا مترادف ہے۔
سرکاری مشینری کو جب عوام کے اندر زیادہ پذیرائی نہیں ملی تو انہوں نے بھاری رقم کا جھانسہ دے کر کونسلرز کو اپنے طرف متوجہ کردیا ہے، کہتے ہیں نہ کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہے پھر کونسلرز نے بھی بھاری رقم، سرکاری فنڈز اور نوکریوں کے لالچ میں آکر اپنا ضمیر فروخت کردیا ہے گویا ہمیں ایسا لگا کہ آج ہم ایسے صدی میں گھس گئے ہیں جہاں ہر چیز برائے فروخت ہے ضمیر برائے فروخت، ایمان برائے فروخت، عزت برائے فروخت، ووٹ برائے فروخت، نوکریاں برائے فروخت، صحافی کا قلم برائے فروخت، سیاستدان کی نظریہ برائے فروخت ہے مگر اس کے باوجود بھی عوام اور سرکاری مشینری کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوا ہے، آخر میں بس اتنا کہوں گا کہ اب ہمیں ذاتی مطلب، شخصیت پرست اور غلامی کو ترک کرکے اس نظام کو ازسرنو تعمیر کرنا ہوگا جہاں کوئی کسی کا غلام نہ ہو اور نہ ہی چند پیسوں کے لیے کسی کو اپنا ضمیر اور ایمان فروخت کرنا پڑے۔
اس میں بلاشبہ کوئی شک نہیں کہ آج وسائل جاگیر داروں کے قبضے میں ہے ہمارے پاس اپنے لیڈر کے خوشنودی کرنے کے علاؤہ کوئی دیگر راستہ نہیں ہے مگر یہ بھی ہمارے لئے لحمہ فکریہ ہے کہ آخر کب تک ہم خوشنودی سے اپنا گزر بسر کرتا رہینگے اور یہ لوگ ہمارے ووٹوں کے ذریعے اقتدار کی کرسی میں بیٹھ کر عیاشیاں کرتے رہینگے، ہوسکیں تو اپنا سوچ بدلوں انشاللہ یہ نظام خودبخود بدل جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔