افغانستان جنگ: برطانوی فورسز کے ہاتھوں 80 افغان باشندوں کے مبینہ قتل کا انکشاف

302

آپریشن نارتھمور تحقیقات افغان جنگ کے دؤران برطانیہ کے خصوصی دستوں کے ہاتھوں متعدد بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کے رپورٹس سامنے آگئے-

افغانستان میں مارے گئے افغان باشندوں کے سوگوار خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکلا نے کہاہے کہ 80افغان باشندے ایسے ہیں جو 2010 اور 2013 کے درمیان تین الگ الگ برطانوی اسپیشل ائر سروس (ایس اے ایس) یونٹوں کے ہاتھوں مارے گئے۔

دی گارڈین کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ ان ایلیٹ برطانوی سپاہیوں میں سے ایک نے چھ ماہ کے دورے پر 35 افغان باشندوں کو نجی طور پر ہلاک کیا تھا۔تمام لڑنے کی عمر کے مردوں کو ختم کرنے کی مبینہ پالیسی کے تحت افغانوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

رپورٹ کے مطابق ایس اے ایس فوجی مبینہ طور پر افغانوں کو ان کی فیملی سے الگ لے جاتے اور پھر ان سے ہتھیار برآمد ہونے کا کہہ کر انہیں قتل کر دیا جاتا لیکن پانچ ایسے واقعات تھے جہاں قتل کئے جانے افراد افراد کی تعداد ملنے والے ہتھیاروں کی تعداد سے زیادہ تھی۔

ان تازہ دعوؤں کا حوالہ ایک قانونی فرم Leigh Day کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک دستاویز میں دیا گیا ہے، جو وزارت دفاع کے سابقہ عدالتی انکشافات کی بنیاد پر افغانستان میں ایس اے ایس فوجیوں کے جنگی جرائم کے ارتکاب کے بارے میں ایک نئی عوامی انکوائری کے لیے پیش کی گئی ہے۔

جون 2011اور مئی 2013کے درمیان، وکلا کی طرف سے 25 مشتبہ اموات ریکارڈ کی گئیں، جس میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ ایس اے ایس کے ایک چھاپے میں چار یا پانچ افغان ہلاک ہوئے لیکن صرف ایک دستی بم ملا۔

صوبہ ہلمند میں برطانیہ کی طویل اور خونریز فوجی تعیناتی کے آخری مراحل میں جو 2014میں ختم ہوئی ایس اے ایس کے ایلیٹ برطانوی فوجی طالبان جنگجوؤں کی تلاش میں اکثر رات کے وقت گھروں پر چھاپے مارتے تھے لی ڈے کا استدلال ہے کہ 2010 اور 2013کے درمیان کم از کم 30 مشتبہ واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں 80 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، لیکن اب تک اس کی کوئی آزاد عوامی تحقیقات نہیں ہوئی ہے کہ ہوا کیا تھا پہلے اندازہ یہ تھا کہ ایک واحد ایس اے ایس یونٹ نے 54 افغان مارے تھے، لیکن اب وکلا کا کہنا ہے کہ زیادہ برطانوی فوجی ملوث ہیں۔

ملٹری پولیس نے 2014 میں آپریشن نارتھمور کا آغاز کیا جو کہ افغانستان میں برطانوی افواج کے 600 سے زائد جرائم کے الزامات کی تحقیقات کا نام ہے اس آپریشن میں ایس اے ایس کے ہاتھوں شہریوں کا مبینہ قتل بھی شامل ہے۔

اس آپریشن کو 2017 میں وزراء نے ختم کر دیا تھا اور 2019 میں بند کردیا گیا تھا اور ایم او ڈی نے کہا کہ جرائم کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

وکلا نے یہ بھی استدلال کیا کہ اس کے بعد کے سالوں میں ایک وسیع، کثیر الجہتی اور برسوں پر محیط کور آپ کیا گیا جس میں سینئر افسران، اہلکار اور متعدد پوچھ گچھ کو چھپایا گیا ایک موقع پر ملٹری پولیس نے برطانیہ کی خصوصی افواج کی قیادت کو حکم دیا کہ وہ اپنے سرور پر موجود کسی بھی مواد کو حذف نہ کریں تاہم اس حکم کی براہ راست خلاف ورزی کرتے ہوئے اسپیشل فورسز کے ہیڈ کوارٹر کے عملے نے ملٹری پولیس کے تفتیش کاروں کے جانچ کے لیے پہنچنے سے کچھ دیر پہلے مستقل طور پر ڈیٹا کی ایک نامعلوم مقدار کو حذف کردیا تھا-