احوال بلوچستان اور کشیدہ صورتحال ۔ شاہ جہان بلوچ

634

احوال بلوچستان اور کشیدہ صورتحال
تحریر: شاہ جہان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچستان کی سیاسی و قومی تحریکوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس میں مختلف ادوار سامنے آتے ہیں، باضابطہ پارلیمانی سیاست، بلوچ قومی جماعتوں کی تشکیل، قد آور بلوچ رہنماوں جیسے میر غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیربخش مری اور آخر میں نواب اکبر خان بگٹی انہی رہنماوں کے صف میں کھڑے نظر آئے۔ ان تمام قابل قدر بلوچ رہنماوں نے مشترکہ جدوجہد کی اور اپنی الگ الگ سیاسی جماعتیں بھی تشکیل دیئے لیکن ان میں جو قدر مشترک بات تھی وہ بلوچ عوام کی خوشحالی، خودمختاری، حق حاکمیت اور مجموعی طور پر بلوچ قوم کے حقوق کا دفاع ہر طرح کے پلیٹ فارم سے کرنا تھا گوکہ ان رہنماوں کی سیاسی حکمت عملی میں وقت اور حالات کے تناظر میں تبدیلیاں آتی رہیں جوکہ کسی بھی سیاسی عمل کے ارتقاء کیلئے لازم و ملزوم ہے۔ اس کی وجہ سے اختلافات کا ہونا ایک فطری عمل کا حصہ ہے۔ ان سب رہنماوں کی ایک اہم کامیابی جس سے قدرے اتفاق کیا جاسکت اہے کہ وہ اپنی زندگیوں اور سیاسی جدوجہد میں کبھی بلوچ قوم کے مجموعی مفاد کو شعور طور پر نقصان پہنچانے کا سبب نہیں بنیں اور آخر دم تک اپنے موقف، نظریہ اور سیاسی جدوجہد کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے رہیں، جس سے بلوچ قوم کو یہ پیغام جاتا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ نقات پر آپ کا اختلاف ہو، ہوسکتا ہے کچھ سیاسی حکمعت عملی اور طریقہ کارِ جدوجہد مختلف ہو لیکن بلوچ قوم کے مشترکہ سیاسی مفادات کو وسیع تناظر میں مدنظر رکھتے ہوئے۔

تمام قوم دوست، جمہوری، ترقی پسند اور سیاسی قوتیں کچھ بنیادی نقات جیسے بلوچ قوم کی شناخت، اسکی حق حاکمیت، ساحل و وسائل کا دفاع، فیصلہ ساز اداروں میں اسکی موثر اور حقیقی نمائندگی، اور بلوچ قوم کیخلاف ہونے والے ہر ظلم اور ناانصافی کیخلاف اپنے نظریاتی و سیاسی اختلافات کے باوجود یک آواز ہوکر مشترکہ قومی یکجہتی کی طاقت سے اس کا دفاع کرنا ہے۔ اس سیاسی سوچ اور قیادت کو ختم کرنے کیلئے ریاست نے مختلف حکمعت عملیاں اختیار کیں جن میں موجودہ سیاسی جماعتوں کے اندر اختلافات، سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ، عسکری ایجنسیوں کی مداخلت، غیر سیاسی قوتوں اور افراد کی پشت پناہی، تشدد و خوف ہراس کا استعمال اور حتیٰ کہ قدرے سخت موقف رکھنے والے بلوچ قوم پرست لیڈروں کو صفحہ ہستی سے مٹانا، سیاسی رہنماوں کو جیل و عقوبت خانے کی نذر کرنا، ایسے سیاسی جماعتوں کی براہ راست راتوں رات تشکیل کرنا جس کی بنیادیں عوام میں نہیں بلکہ عسکری اداروں کے گملوں میں ہوں لیکن اسکے ساتھ جو حالیہ دس سے پندرہ سالوں میں ایک حکمعت عملی طاقتور فیصلہ ساز اداروں، جو برائے راست سیاسی عمل میں مداخلت کرتے ہیں، کی طرف سے 2010ء کے بعد منظر عام پر آتی اور خصوصاً نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد اس کو اور ریاستی اداروں کی پشت پناہی اور مضبوط کمک و امداد کے بعد سرعام فروغ دیا گیا وہ بلوچستان کے کچھ خاص علاقوں جسیے ڈیرہ بگٹی سے شروع ہوکر بلوچستان دوسرے علاقوں تک پھیلایا گیا؛ وہ ڈیتھ اسکواڈز کی تشکیل جوکہ ڈیرہ بگٹی میں امن فورس کے نام سے شروع ہوئی، ساروان کے علاقے میں بلوچستان متحدہ محاذ اور جھالاوان کے علاقے میں مسلح دفاع تنظیم سامنے آئی اور اس طرز پر مکران میں بھی راشد پٹھان، سمیر سبزل اور مقبول شمبے زئی اور دیگر کی شکل میں ڈیتھ اسکواڈز کو متحرک رکھا گیا ہے۔ اس طرح بلوچ قومی مزاحمت کو ختم کیلئے پرائیویوٹ ملیشیاء کا استعمال کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں ساوتھ ایشیاء پریس کی ایک خصوصی تحقیقاتی رپورٹ جوکہ اپریل 2021ء میں آنلائن شائع ہوئی تھی؛ اس انتہائی تفصیلی اور تحقیق پر مبنی ایک رپورٹ نے بلوچستان کی تناظر میں باقاعدہ جدید انفوگرافک تجزیہ پیش کیا ہے اور خصوصاً وہ ریجن جہاں پر ڈیتھ اسکواڈز متحرک رہے ہیں جن میں مستونگ، خضدار، آواران، پنجگور اور کیچ کے علاقے شامل ہیں ان سب کا بہت تفصیلی مشاہدہ اور تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح یہ تمام ڈیتھ اسکواڈ پورے بلوچستان کو اور خصوصاً وہ علاقے جہاں بلوچ قومی مزاحمت زیادہ موثر ہے، میں اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں حالانکہ بلوچستان میں امن و امان کے نام پر اب تو صوبائی بجٹ بھی 60 سے 70 ارب روپے مختص کیئے گئےہیں، اس پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایم پی اے اختر لانگو جوکہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں، نے بلوچستان اسمبلی میں گذشتہ دنوں اظہار خیال کیا تھا کہ اگر امن و امان کی ذمہ داری بلوچستان میں ریستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈز کو دی گئی ہے تو یہ مخصوص رقم سیکورٹی کے بجائے عوام کی تعلی، صحب اور غربت کے خاتمے کیلئے خرچ کرنی چاہیے۔

ویسے بھی ہمارے ملک کے حکمران اب تک بلوچستان کے مسئلے کو ایک سیکورٹی مسئلہ زیادہ سمجھتےہیں حالانکہ بلوچستان کا مسئلہ ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے اور اسکا حل سیکورٹی بڑھانے، امن و امنا کیلئے بجٹ خرچ کرنے اور ملٹری آپریشن کے ذریعے امن بحال کرنے کے دعوے پہلے غلط ثابت ہوئے اور مستقبل میں بھی غلط ہی ثابت ہوکر رہیں گے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ حکمران طبقہ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کسی عملی سیاسی حل پر یقین نہیں رکھتے اور نہ ہی اسکی نیک نیتی اور خلوص کیساتھ کوئی قابل ذکر و نتیجہ افزائش کوشش سامنے آئی اور تاحال بلوچستانسلگ رہا ہے اور اس میں اب بھی جبری گمشدگیاں، بلوچ سیاسی کارکنان کا اغواء اور تشدد کا معاملہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ کوئِ بھی حکموت ہو؛ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، تحریک انصاف، وفاق اور عسکری پالیسی ساز جوکہ درحقیقت بلوچستان کے مسئلہ کو بیشتر انڈیا کی مداخلت، عالمی طاقتوں کی سازش، قومی سلامتی کو خطرات، اسلام دشمنی کے مخصوص تناظر میں دیکھ کر صرف طاقت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں جوکہ گذشتہ 70 سالوں سے ناکام ہی رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ وہ ماضی سیکھیں، خصوصاً بنگلہ دیش کے واقعات سے سبق حاصل کریں کیونکہ لگتا یہی ہے کہ تاحال وہ ایک پرانے سوفٹ ویئر سے کام لے رہے ہیں جوکہ اپنی ناکامی ثابت کرچکا ہے۔

اب پالیسی سازوں اور ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں و عسکری قوتوں کو گھمبیر سیاسی مسائل کے حل کیلئے اپنے سافٹ ویئر کو اپ ڈیٹ کرنا پڑے گا کیونخہ نہ یہ 70 کی دہائی ہے اور نہ بلوچستان بنگلہ دیش ہے۔ بلوچستان اپنی قومی مزاحمت کی ایک تاریخ رکھتی ہے جوکہ تاریخ کا حصۃ ہے جس میں نوری نصیر خان بلوچ سے لیکر آج کے فرزندان سرزمین شامل ہیں اور حالیہ تاریخ میں قیامِ پاکستان اور بلوچستان کے جبری الحاق سے لیکر آج تک ایک سیاسی تحریک جاری ہے۔

بلوچستان کے حساس مسئلہ کو سیاسی سنجیدگی اور دور اندیشی سے حل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج انتہائی خراب تر صورتحال اختیار کریں گے۔ بلوچستان میں جمہوری سیاست کے دروازے بھی قوم پرست جماعتوں کیلئے بند کیئے جارہے ہیں اور ایک خاس منصوبہ بندی کے تحت، ڈیتھ اسکواڈز، جرائم پیشہ افراد، غیر سیاسی عناصر کو سرکاری سرپرستی میں قوم پرست قوتوں اور پارٹیوں کے سامنے لاکھڑا کیا جارہا ہے تاکہ بلوچستان میں بلوچ قوم پرستانہ سیاست کو کمزور کیا جائے اور ایسے لوگوں کو فیصلہ ساز اداروں اور پارلیمنٹ میں لایا جائے جوکہ بلوچستان اور بلوچ قوم کے قومی مفادات پر کوئی سوال نہ اٹھائے جسکی حالیہ واضح مثال راتوں رات بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل ہے اور تقریباً بلوچستان کے تمام ڈیتھ اسکواڈز کو اس اس پارٹِ کے ہر طرح کی حمایت حاصل ہے۔ بعض ڈیتھ اسکواڈز کے سربراہان تو اسکے بانی اراکین میں سے ہیں جسکی وجہ سے گذشتہ الیکشن میں کئی حلقوں میں دیٹھ اسکواڈز کے کمانڈرون اور بلوچستان عوامی پارٹی میں انتخابی اتحاد ریاست کی سرپرستی میں دیکھنے کو ملی لیکن زیادہ افسوس اسوقت ہوا جب نیشنل پارٹِ جو کہ اپنے آپ کو بابائے بلوچستان میرغوث بخش بزنجو کا پروکار سمجھتی ہے، خصوصاً خضدار کے حلقے سے بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے کمانڈر شفیق مینگل سے انتخابی اتحاد کیا اور کچھ حلقوں میں تو اپنی پارٹی کے امیدار ہونے کے باوجود ڈیتھ اسکواڈ کے سرکردہ لوگوں کو ترجیح دی جسکی وجہ سے ان کو سیاسی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

لیکن یہ میر غوث بخش بزنجو کے فلسفے، سیاسی جہد کی شدید ترین نفی ہے جسکی نیشنل پارٹی سے ہرگز توقع نہیں تھی۔ امید ہے کہ نیشنل پارٹِ اس سے کچھ سبق سیکھ کر یہ غلطیاں نہیں دہرائےگی کیوںکہ اس سیاسی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے شفیق مینگل جیسے شخص جوکہ اپنے بلوچ دشمن کردار کی وجہ سے ایک یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں لڑ سکتے، کو تقریباً 14000 ووٹ ملے اور یہ اس ریاستی حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں ڈیتھ اسکواڈز کو اب سیاسی عمل کا حصہ بنانے کو مزید تقویت ملی جوکہ کسی بھی طرح سے بلوچ قومی مفاد میں نہیں ہے۔ دوسری طرف بلوچستان نیشنل پارٹی کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی اپنے صفحوں پر کڑی نظر رکھیں اور کسی بھی جرائم پیسہ، ڈرگ سمگلر اور ایسے شخص یا گروپ سے سیاسی اتحا اور وابسطگی نہ رکھے جن کے ہاتھ مظوم بلوچوں کے خون سے رنگے ہوں یا وہ اس ریاستی ایجںڈے کا حصہ ہو جو بلوچ قوم پرست سیاسی کیلئے زہر قتل ہو۔
ہمارے وہ ساتھی جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے ان سے میری انتہائی احترام سے یہ عرض ہے کہ ایسے فیصلے وقت اور حالات پر منحصر ہوتے ہیں اور خصوصاً بلوچستنا مخصوص سیاسی، سماجی اور قبائلی تناظر میں ایسے معاملات کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب شفیق مینگل کی مثال دیکھیں اگر قوم پرست جماعت کے الیکشن بائیکاٹ کی وجہ سے لوکل گورنمنٹ الیکشن میں بی این پی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اسکی وجہ سے ایک ایسے شخص کو تحصیل ناظم بننے کا موقع ملا یا دیا گیا، جو شاید ان دنوں کونسلر بھی نہ بن سکتا ہو، اور مصدقہ معلومات کے مطابق شفیق مینگل کے خاندان کو زمین بھی سردار عطاء اللہ مینگل نے دی تھی اور انکے والد قبائلی معاملات میں ہمیشہ سردار عطاء اللہ مینگل کا ساتھ دیتے رہے لیکن آج شفیق مینگل اور اسکے ساتھی جوکہ ایک پرتشدد اور مسلح گروہ کی شکل اختیار کر گیا ہے اور وہ وڈھ میں اپنی اجارہ داری سرکار کی ایماء پر بندوق کے زور قائم کرنا چاہتا ہے اور حالات اب یہان تک پہنچے ہیں کہ اسکی وجہ سے وڈھ میں امن و امان کے شدید خطرات پیدا ہوگئے ہیں جسکی وجہ سے بلوچستان میں پھر ایک اور خون ریزی کا عمل شروع ہونے کا خدشہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سنگین اور حساس مسئلہ پر سنجیدہ اور پرامن حل کی طرف اقدامات کیئے جائیں کیونکہ یہ ایک اندرونی قبائلہ مسئلہ یا تنازعہ نہیں ہے اسکو ایک محدود قبائلی دائرےمیں دیکھنے کی بجائے بلوچ قومی تناظر اور اسکے مجموعی طور پور بلوچ قومی تحریک پر اثرات دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دراصل یہ ایک بلوچ قومی مسئلہ ہے۔

اس لیے اسکے پرامن اور پائیدار حل کیلئے تمام متعلقہ ذمہ داران اور قوتوں کو اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ ڈیتھ اسکواڈز اب سیاسی گروہوں اور پارٹیوں کی شکل میں ریاستی ایماء پر بلوچ قوم پرست قوتں کے مدمقابل سامنے آرہے ہیں اور جس طرح کا سیاسی بیانیہ اور اپنے سیاسی وجود کو بنانے کیلئے اسلام، جہاد، قرآنی آیات کا سہارے لے رہے ہیں اور اسکے ساتھ اس کو ریاستی نام نہاد دو قومی نظریہ سے جوڑنے کی ناکام کوشش کرنے کیساتھ بلوچ قوم پرستوں کا بھارتی ایجنٹ قرار دینے والے فتوے کا پرچار کررہے ہیں۔ اس کا مقابلہ ہر میدان میں کرنے کی ضرورت ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ترجمان شفیق مینگل کا ہے وہی مولانا ہدایت الرحمان کا بھی ہے تو سمجھنے والوں کیلئے اس میں بڑی واضح نشانیاں ہیں اور اسکے باوجود بھی کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ صرف قبائلی معاملہ ہے اور ہمارا کوئی تعلق نہیں ان کیلئے صرف دعائے عقل و وجدان ہی کی جاسکتی ہے اس لیے وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اور ان کی پارٹِ سے عملی اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے اور وڈھ کے مخدوش امن و امان کی صورتحال کو معمول پر لانے کیلئے ریاست کو بھی شاہد کچھ کڑوے گھونٹ پینے پڑیں گے اور وہ کچھ تو سبق سیکھیں کہ حافظ سعید جیسے انکے قومی اثاثوں نے ملک کیا دیا اور ایسے ناعاقبت اندیشن فیصلوں سے اس ریاست کو صرف ذلت و رسوائِ کا سامنا کرنا پڑا، ملک کے ترقی پسند، وطن دوست، قوم پرست سے یہ گزارش ہے کہ وہ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواہ میں کانفرنسز کا انعقاد کریں جس میں بلوچستان مجموعی صورتحال اور خصوصاً حالیہ امن اور امان کی کشیدگی پر ڈائیلاگ کا اہتمام کرکے بلوچستان میں مبینہ ڈیتھ اسکواڈز کو غیر مسلح کرنے اور ریاستی پشت پنائی ختم کرنے کیساتھ ان جرائم پر سزا دینے کے مطالبات بھی شامل ہوں کیونکہ اگر سانحہ توتک کے ذمہ داران کو سزا دی جاتی تو نوبت یہاں تک نہیں آتی کہ اب ایک دہائی کے بعد سانحہ توتک میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کے سبب اسی خاندان کی ایک خاتون سمعیہ قلندرانی بلوچ نے فورسز پر خودکش حملہ کیا اسکے خاندان کے کئی افراد اب تک عسکری فورسز کی تحویل میں ہیں جس کو دس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر گیا ہے۔

دوسری طرف وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فوری طور پر ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے جوکہ وڈھ بلوچستان کا دورہ کرے کیونکہ یہ مسئلہ آگ اور خون کی ہولی برداشت نہیں کرسکتا اس لیے اسکے پرامن اور پائیدار حل کیلئے تمام ریاستی اور عوامی قوتوں کو اپنا کردار ادار کرنا ہوگا کیونکہ امن اور امن باہمی میں ہی سب کی بقاء ہے اس سے قبل کہ بہت دیر ہوجائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔