بلوچستان اور برمودا ٹرائینگل
تحریر: پری گل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جنہوں نے برمودا کا نام سنا ہے، اس کے قریب سمندرمیں ایک مقام برمودا ٹرائینگل کی پراسرار گمشدگیوں کے بارے میں ضرور جانتے ہونگے۔ یہ دنیا میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے گزرنے والے بحری اور ہوائی جہاز لاپتہ ہوجاتے تھے کہا جاتا ہے وہاں سمندر میں کچھ اس طرح کی قدرتی ” فورسز” موجود ہیں جو ان گمشدگیوں کی ذمہ دار تھیں یا ہیں۔ واللہ اعلم ۔
دنیا میں خشکی پر بھی کچھ ایسی ” فورسز” موجود ہوتی ہیں جو انسانوں کو نظر آتی ہیں۔ عام انسانوں کی طرح نظر آنے والے کچھ لوگ جنہوں نے اپنا نام خود “فورسز” ہی رکھا ہے خشکی پر انسانوں کی گمشدگیوں
کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یہ انسان خود کو ایک خاص مشن پر سمجھتے ہیں جس کا مقصد لوگوں کی حفاظت ہوتا ہے۔ یہ خود کو قومیت یا علاقائیت کے تعصب سے پاک اسلامی جمہوریہ کی سیکورٹی فورسز کہتی ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے انہوں نے سیکیورٹی کے نام پر کئی لوگوں کو گواہوں کی موجودگی میں آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اٹھایا کئی کی لاشوں گلا سڑا کر پھینک دیں۔ کئی کو اجتماعی قبروں میں گمنام دفن کردیا کئی ان کے قید خانوں میں اب تک بند ہیں۔
انہوں نے بلوچستان میں خاص طور پر وہی لوگ اٹھائے جنہوں نے انسانی فطرت میں موجود آزادی کا مطالبہ کیا جنہوں نے شریعت کی رو سے اپنی زمین پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا جنہوں نے کسی فورس کے زبردستی قبضے کو ناجائز کہا اور اس کے خلاف بولے۔ بولنے کے جرم میں سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جو انہیں لگ رہا تھا مستقبل میں ان کے ملک کے لئے خطرہ ہونگے۔ جنہیں اغوا کرنے کے بعد چھوڑ بھی دیا تو ایسی حالت میں کہ وہ دوبارہ معاشرے میں کار آمد نہ رہیں۔ نفسیاتی حوالے سے تباہ کرکے نیم پاگل اور کچھ کو مکمل پاگل کرکے ویرانوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ زندانوں میں انکے ساتھ جو رویہ ہوتا ہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ایک الگ کہانی ہے۔
ان گمشدگیوں سے جڑی ایک کہانی ان خاندانوں کی ہے جو سالہا سال سے اپنے پیاروں کے لئے در بہ در ہیں۔ ضعیف مائیں اپنے بیٹوں کی تصویریں اٹھائے پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ جوان باپردہ بیویاں اور بہنیں اپنے چھوٹے بچے لئے سردی و گرمی کی پروا کئے بغیر اپنے عزیزوں کے لیے روڈوں پہ نظر آتی ہیں۔
کم سن بچے اپنے باپ کی زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ عید کے دن مہندی ہاتھ پہ لگائے نئے کپڑے پہنے بچے نارمل زندگی کی طرف نہیں جا پاتے وہ عید کا دن بھی اپنے گھر نہیں گزار سکتے کیونکہ انکے گھر کی چھت پر خطرہ منڈلا رہا ہے۔ بے بس گھر والے سوائے احتجاج کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ انسانی حیثیت سے ان گھر والوں نے اپنی ہر پر امن کوشش کرکے دیکھ لی کوئٹہ سے اسلام آباد پیدل مارچ کرکے دیکھ لیا لیکن دوسری طرف بے رحم ” فورسز” جو سمجھتی ہیں کہ سیکورٹی کے نام پر کسی قوم کا وہ فیصلہ کریں گی جسے وہ بہتر سمجھتی ہیں۔
سیکیورٹی کے نام پر وہ کوئی بھی غیر انسانی اور غیر شرعی رویہ روا رکھ سکتی ہیں وہ لوگوں کو اتنا مجبور کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنے اغوا شدہ لوگوں کو لاپتہ کہنا پڑتا ہے۔ انسان دنیا کے کسی حصے میں میں اپنے لئے خطرہ محسوس کرتا ہے تو وہاں نہیں جاتا لیکن خطرہ جب اتنے بڑے پیمانے پر آکر مسلط ہوتو کہاں جائیں؟ بلوچستان کے لوگ فورسز کی پراسرار گمشدگیوں سے بچنے لئے کہاں جائیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں