کیا قومی جدوجہد میں اقدار فراموش کیے جا سکتے ہیں؟ – برزین بلوچ

271

کیا قومی جدوجہد میں اقدار فراموش کیے جا سکتے ہیں؟

تحریر: برزین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں محکوم اقوام کی جدوجہد مخلتف ادوار میں نئی حکمت عملیوں،فلسفے،شعوری، جنگی و سماجی ارتقا کی بدولت لڑی گئی ہیں۔ جدوجہد میں اونچ نیچ کا تعلق محض وقتی حالات ہی پر رہا ہے۔

بلوچ تحریک کئی منازل طے کرتے ایک نئی روپ دھار چکا ہے۔ مثلاً میر حمل کَلمَتی کی جہد قومی وجود پر تھی لیکن دنیا میں ایک طبقہ قوم پرستی کی ارتقا کو اٹھاریوں صدی پر ڈھونڈتا ہے ان کے بقول انقلابِ فرانس سے پہلے قوم اور قومیت کی منظم شکل تھا ہی نہیں۔ حلانکہ حمل کی جہد میں کہیں بھی علاقہ پرستی اور مخصوص مفادات پنہاں نہیں تھے۔ حمل کی جنگ کے دوران جو زبانی لٹریچر ہمیں دستْیاب ہے وہاں اقدار کو ترجیحی بنیادوں پر پرکھا گیا ہے۔

انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس کی کامیابی،دنیا کی مظلوم اقوام کے لیے طلوعِ آفتاب تھی۔ نئی جنگییں نئی حکمت عملیوں اور شعوری ارتقا پر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ جن میں کئی گوریلے جنگ شروع ہوئے مثلاً کیوبا میں فیڈرل کی جنگ،کیوریا میں کم ال سنگ،ویتنام میں ہوچی منھ،الجیریا میں فینن،فلسطیں میں یاسر عرفات اور ہند میں بھگت سنگھ کی جہدِ آزادی شامل ہیں جو لینن اور مارکس کی فلسفہ و نظریہ سے ماخذ اور اثر انداز تھیں۔

اسی دوران بلوچستان میں میں آغا عبدالکریم کی جنگ ہوئی جسے بعد میں جب کچلا گیا تو کہا گیا یہاں اسٹالن اور مارکس کو پڑھا جاتا تھا۔ تہتر کی شیرو مری کی جنگ نہ صرف سوشلسٹ سماج سے متاثر تھی بلکہ اس کے بنیادی ستون ہی وہیں سے ملتے جلتے تھے۔

اب بلوچ ایک نئی تحریک میں سرگرداں ہے۔ زمینی حالات نے اس جنگ کو وسعت اور شعوری دہرائے پر کھڑا کیا ہے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس جنگ کو ہوا ریاستی پالیسیوں نے خوب بھرا ہے۔ ہزاروں نوجْوان زمینی حقائق کی وجہ سے نئی بحث پر آتے گئے اور بحث سے سوال کا پورن جنم ہوا،سوال نے تحریک پیدا کی ہمت اور شعور برپا کی۔

اب بلوچ جدوجہد جند ندر فلسفہ پر عمل پیرا ہے جن میں بلوچ خواتین حصّہ لے چکی ہیں۔ اس صورتحال میں نئی بحث کا اجرا ہو چکا ہے۔ یہاں دو طبقے بحث کر رہے ہیں جن میں سے ایک آزادی پسند کنفیوز طبقہ جبکہ دوسرا فیمنسٹ۔

کئی لوگ پہلی بار ششدرہ ہیں ان کو بھول کے دوسرے طبقے کو دیکھتے ہیں کیونکہ شاری کی قربانی پہلی طبقے نے سراہا تھا۔ دوسرا طبقہ بارہا کہتا ہے خواتین کو جنگ میں نہ دھکیلیں البتہ یہی طبقہ ریاستی جبر سے متاثر خواتین کے بارے خاموش ہیں۔

مجھے یہی جملہ کسکتا ہے کہ آپ خواتین کی آزادی بھی چاہتے ہیں اور جب خواتین زن زندگی آزادی کے جملے پر پورا اتُرنے لگتے ہیں تو آپ خواتین کی غلامی پر اکتفا کر لیتے ہیں۔

یہ طبقہ شاید خواتین کی جنسی زندگی،معاشی اور سماجی زندگی سے آزادی چاہتے ہیں لیکن ان کی سوچ یہاں آکے جواب دیتی ہے کہ معاش،سماج،جنس کا قومی آزادی کے بغیر کیا وجود ہو سکتا ہے۔

سماجی اقدار میں بلوچ قومی تحریک جب بھی اٹھی ہے تو کہا گیا ہے کہ شناخت اقدار زبان اور زمین کی حفاظت کے لیے لڑیں۔ میری سمجھ بوج یہاں ختم ہوتی ہے کہ کیا دوپٹّہ بلوچ کی اقدار نہیں؟ اگر ہے تو جہدکار غیروں کی لباس خواتین کو کیوں ہہناتے ہیں۔ کیا یہ غلامی کی پہلی قدم نہیں،کیا اس سے ہم اپنے اقدار اور اصولوں کو بزات خود نقصان نہیں دے رہے؟ آخری کنفیوژن یہ ہے کہ بلوچ لٹریچر خواتین کو ننگ کہتی ہے۔ اگر بلوچ کی ننگ روڈوں پر بکھیرے ہوئے پڑے تو ننگ کہاں گئی؟ کیا بلوچ کو اقدار سنبھالنا ہے یا جنگ کے لیے نئی اقدار،لٹریچر،اصول،لباس بنانے پڑنے ہیں؟

من و عن یہ دلیل بھی ہنوذ جگہ گھیر چکی ہے کہ آپ کی ننگ اگر قومی ننگ کی حفاظت کرے تو برائی کیا ہے۔

کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ بلوچ سوشلزم کو قبول کرے تو کوئی افہام نہیں،غیروں کی تہذیب کو قبول کرنے سے اپنی روایات کی صندوق کھولی جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سوشلزم عالمگیر تحریک رہی ہے جس میں مزدک سے مارکس کی جہدوجہد اور قبل ازیں اسے زندہ رکھنے کے لیے کئی قومیتوں نے قربانیاں دیں۔ ضروری نہیں بلوچ مارکس سے متاثر ہوکے جرمن بولنے لگ جائے اگر ایسا ہوتا تو عمان میں ظفار کی سوشلزم کی بنیاد پر قومی جہدوجہد میں عرب پتلون پہنتے،روسی جرمن بولتے،جرمن مزدک کی زبان بولتے۔ اگر جنگی و شعوری حکمت عملیوں میں تہذیب کا عمل دخل ہوتا تو جرمن اور روس دنیا کی مشہور تہذیبیں ہوتیں کیونکہ اپنی تہذیب ہر وقت سامراج نے دوسروں پر نافذ کیے ہیں یہی وجہ ہے آج برطانیہ اور امریکہ کی تہذیب دنیا پر حاوی ہے۔

بلوچ بیرونی رسم و رواج سے جب آزاد نہ ہو تو اپنی زمین کے لیے کیسے لڑے گی۔

کیا ہم جدوجہد کے کرداروں کو ایک نئی ہیش ٹیگ کی صورت میں مخصوص چہروں سے یاد رکھیں گے یا ان تمام کرداروں کو اجتماعی جہدوجہد کے سرمچار کہیں گے جنہوں نے اس جہدوجہد کو وسیع اور امر کرنے میں مدد کی ہے۔

بہر کیف محکوم کے لیے تشدد کے سوا دوسرا آپشن نہیں ہے۔ محکوم اپنی طاقت سے سامراجی تشدد کو جوابِ تشدد سے نبردِ آزما ہو سکتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں