گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن آئینی بلوچستان کے زیر اہتمام پیر کو کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا گیا۔
اس موقع پر احتجاجی کیمپ میں اساتذہ اوراظہار یکجہتی کیلئے آنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماوں سے بات چیت کرتے ہوئے خادم علی بگٹی اوردیگر نے کہا کہ جی ٹی اے آئینی نے گزشتہ سال اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل جونیئر اساتذہ کی اپ گریڈیشن، ٹائم اسکیل کے انجماد کے خاتمے، پری میچور انکریمنٹ کی بلاجواز کٹوئی، پروفیشنل الاونس میں اضافے ‘بجٹ بک میں مسنگ پوسٹوں کے خاتمے ، محکمہ تعلیم کے فنڈز میں خوردبرد ، سنگل ٹیچرز اسکولز میں جے وی ٹی کی اضافی اسامیوں کی منظوری ،اساتذہ کی پروموشن پر ہنگامی بنیادوں پرا قدامات اوردیگر مطالبات کیلئے 38روزہ تادم مرگ بھوک ہڑتال کی جس کے نتیجے میں وزیراعلیٰ بلوچستان ،صوبائی کابینہ اوراپ گریڈیشن بورڈ نے باقاعدہ منظوری دی لیکن چیف سیکرٹری بلوچستان ،سیکرٹری فاننس نے غیر ضروری اعتراضات لگاکر سمری التواءمیں رکھی ہوئی ہے جس سے اساتذہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اس صورتحال کے پیش نظر صوبائی قیادت نے باامر مجبوری دوبارہ احتجاجی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 17سے 25مئی اور تین جون کو مردوخواتین اساتذہ نے احتجاجی مظاہرے اوردھرنے دیئے لیکن مسائل کے حل میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی دوسرے مرحلے میں علامتی بھوک ہڑتال شروع کی گئی ہے بھوک ہڑتال پر پہلے روز خادم علی بگٹی ،شعیب ترین، محمد انورساسولی ، صدیق کھیتران اوردیگر اساتذہ بیٹھے۔