ڈیورنڈ لائن ایک فرضی لکیر ہے۔ ملا یعقوب مجاہد

704

طالبان حکومت کے وزیر دفاع مولوی محمد یعقوب مجاہد نے افغان میڈیا طلوع نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن سرحد ایک ’لکیر ہے‘ اور اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہے۔ اس ’فرضی لکیر‘ کے حوالے سے ہم تب بات کریں گے جب عوام چاہے۔

یہ انٹرویو انہوں نے افغان میڈیا کو پشتو انٹرویو میں دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے عوام کو اب دیگر مسائل کا سامنا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اس پر بحث شروع کرنے سے دیگر مسائل پیدا ہوں لہذا جب عوام چاہیں گے پاکستان سے ڈیورنڈ لائن پر بات کی جائے گی۔

انہوں نے ٹی ٹی پی کے حوالے سے کہا کہ اگر ٹی ٹی پی افغانستان میں ہے تو پھر وہ سرحد پر چوکیوں پر حملے کرے وہ کیسے ملک کے اندر دور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں پر حملے کر رہے ہیں؟ وہ خود نہیں روک سکتے تو ہم پر الزام کیوں لگاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کسی ملک کے مخالفین کو اپنے ملک میں جگہ نہیں دینا چاہتی۔ ’ہم کسی کے مخالفین کو یہاں نہیں رکھنا چاہتے۔‘

پاکستان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کافی سوچ کے بعد جواب دیا کہ اسے ایک آزاد اور آباد افغانستان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ’آباد افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے۔‘

ملا محمد یعقوب نے دہشت گرد تنظیموں کے بارے میں سوال کے جواب میں بھی کہا کہ دہشت گردی کی پہلے تعریف ہونی چاہیے کہ کون دہشت گرد ہے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی فضائی حدود اب بھی امریکہ کے قبضے میں ہیں ’ایئر سپیس کی خلاف ورزی ہے، اس پر قبضہ ہے اور اس پر اب بھی امریکیوں کا قبضہ ہے

جب ان سے پوچھا گیا کہ امریکی طیارے افغانستان کی فضائی حدود میں کہاں سے آ رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’پچھلی بار میں نے اس بارے میں وضاحت کی تھی، میں نہیں چاہتا کہ کشیدگی دوبارہ ہو اور دوسرے ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوں۔‘

اگست 2022 میں یعقوب مجاہد نے کابل میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق ’امریکی ڈرون پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہم پاکستان سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ کرے۔‘

مولوی محمد یعقوب مجاہد کا کہنا ہے کہ مخلوط حکومت کے قیام کے نام پر ’غیر ملکی مداخلت‘ کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔

عالمی برادری بشمول ہمسایہ ممالک چاہتے ہیں کہ طالبان ایک ایسی حکومت بنائیں جو عوام کی نمائندگی کرے۔ لیکن طالبان حکام ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں ’ہر قوم کے لوگ‘ ہیں۔

طالبان حکومت کی کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو ان کی تحریک کے ارکان ہیں، اور کسی بھی خواتین کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات نہیں کیا گیا ہے۔