ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے 14 سال، کراچی میں عید کے روز مظاہرہ

322

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 14 سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے پر کراچی میں عید کے پہلے روز احتجاج کیا گیا۔ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیخلاف کوئٹہ اور گوادر میں بھی مظاہرے ہوئے جبکہ سماجی رابطوں کی  سائٹ پر آگاہی مہم چلائی گئی۔

کراچی احتجاج میں سیاسی سماجی تنظیموں کے رہنماء و ارکان، صحافیوں سمیت دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین شریک تھیں جنہوں نے اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر اُٹھائے ہوئے تھیں-

کراچی احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا انکے والد کو چودہ سال قبل 28 جون 2009 کو خضدار کے علاقے اورناچ سے دوران ڈیوٹی ریاستی فورسز کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا جو تاحال منظر عام پر نہیں آسکے ہیں اور نا ہی ہمیں بتایا گیا ہے وہ کہاں کس حال میں ہے-

سمی بلوچ کا کہنا تھا ان چودہ سالوں میں انکے خاندان کو کوئی بھی رسائی نہیں دی گئی نا انھیں کسی عدالت میں پیش کیا گیا اگر ملکی اداروں کو اپنے قائم کردہ عدالتی نظام اور فیصلوں پہ بھروسہ ہے تو وہ انہیں عدالت میں قانون کے سامنے پیش کیا جائے اگر والد پر کوئی الزام ہے تو جرم ثابت کیا جائے لیکن اس طرح انکو ٹارچر سیل میں رکھ کر ہمیں شدتِ کرب سے دوچار نا کیا جائے-

سمی دین نے کہا کہ انہوں نے اپنی فیملی کے ساتھ ان چودہ سالوں میں احتجاج کے تمام تر جمہوری اور آئینی ذرائع بروئے کار لائے ہیں، کورٹس، کمیشن، پٹیشن سمیت تمام قانونی چارہ جوئی بھی استعمال کئے ان چودہ سالوں میں ہر بدلتے حکومتی سربراہ، وزرا اور اعلیٰ حکام سے بھی ملاقاتیں کی جو مسلسل ہمیں جھوٹی تسلیاں دیکر چھپ کرتے رہے ہیں-

وہ کہتی ہے ہم اس ملک کے قانون اور آئین کو مانتے ہوئے انصاف کے طلبگار ہیں لیکن اس ملک کے ادارے اپنے ہی آئین کو ماننے سے قاصر ہیں میرے والد چودہ سال ریاست کی غیر قانونی حراست میں ہے، قتل کے ایک مجرم جو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے وہ مجرم بھی اتنے عرصے میں اپنا سزا پورا کر چکا ہوتا ہے لیکن میرے والد کو تاحال منظرعام پر نہیں لایا گیا ہے جو اس ملک کے ایک آزاد جمہوری اور خود مختار ریاست ہونے پہ ہی سوالیہ نشان ہے-

کراچی احتجاج میں شریک ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے قاضی خضر نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا ڈاکٹر دین محمد کی جبری گمشدگی کو چودہ سال کا عرصہ مکمل ہوگیا البتہ ہم انکی بازیابی کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن ہم جرنیلوں سے آج سوال کرینگے کہ اس غیر قانونی عمل کی اجازت تمھیں کس نے کس حق سے دیا ہے-

انہوں نے کہا ریاستی ادارے آج جو ظلم بلوچوں پر ڈھا رہے ہیں آج لاپتہ افراد کے لواحقین پرامن طریقہ سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں آپ انھیں اتنا مجبور نا کریں کہ کل کو وہ لکیر کے دوسرے جانب کھڑے ہوں پھر آپ کے ہاتھ کچھ نہیں ہوگا-

کراچی میں انسانی حقوق کی کارکن اور تحریک نسوان کے رہنماء شیما کرمانی کا کہنا تھا سمی اور مہلب کے اسکول جانے کی عمر میں انکے والد کو ریاست نے لاپتہ کردیا تب سے لیکر ابتک وہ آئینی مطالبہ کررہے ہیں کہ انکے والد کو منظرعام پر لایا جائے لیکن ریاست اپنے شہریوں کے خلاف اس نہج پر پہنچی ہے کہ وہ انکے سوالات کے جوابات تک دینا گوارہ نہیں کررہا، بلوچوں کو بتایا جائے انکے پیارے کس قید میں ہے اگر وہ زندہ ہیں تو کہاں ہیں اگر مار بھی دیا ہے تو بتا دیں-

نیشنل ڈیموکریٹک مومنٹ کے شیر محمد کا کہنا تھا جب عید کو پنجاب کا اشرافیہ خوشیاں منا رہی ہوتی ہے تو بلوچ پشتون مائیں سڑکوں پر اپنی مجبوری لیکر احتجاج پر بیٹھے ہیں ریاست کو یہ سمجھنا چاہیے کسی کے صبر کا اس قدر امتحان نہیں لیا جاتا اسکے نتائج بُرے ہوسکتے ہیں-

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے رہنماء وھاب بلوچ کا کہنا تھا ریاستی ادارے جو خود کو دنیا کے نمبر ون ادارے کہتے ہیں وہ عام لوگوں کو لاپتہ کررہے ہیں جو ان سے جنگ لڑ رہے ہیں انکا سامنا کرنے کی جرات ریاست میں نہیں بلوچ لاپتہ افراد کی جہدو جہد سخت ہے البتہ ہم اپنے آئینی مطالبے سے پیچھے نہیں ہونگے-

کراچی احتجاج کے موقع پر لاپتہ راشد حسین کے والدہ، سعیدہ حمید، سیما بلوچ شریک ہوئے اور لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا-

سال 2016 سے جبری لاپتہ بلوچ طالب علم رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ نے کہا سات سالوں سے بھائی کی بازیابی کی فریاد لیکر احتجاجوں میں شریک ہوں میرا بیٹا چھ سال اور بیٹی ڈھائی سال کی ہوگئی ہے اب لگتا ہے میرے بچے بھی سمی اور مہلب کی طرح پریس کلبوں میں بڑے ہونگے اگر ہمارے پیارے زندہ ہے تو انھیں عدالتوں میں پیش کرو-

کراچی سے دو سال قبل حراست بعد جبری لاپتہ عبدالحمید زہری کی بیٹی سعیدہ حمید نے کہا وہ والد کے جبری گمشدگی سے اذیت کا شکار ہیں جب انصاف کے لئے عدالتوں میں جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے آپ اپنے پیاروں کی ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنائے یہاں آکر ہمیں تنگ نا کریں-

سعیدہ حمید کا کہنا تھا ہمیں سننے والا کوئی نہیں ہم پُرامن شہری بن کر رہنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن ریاست ہمیں مجبور کررہی ہے کے ہم کوئی اور اقدام کریں اگر ہمارے پیاروں پر کوئی جرم ہے تو عدالتوں میں لائیں انصاف کریں ہمیں آپ کا فیصلہ قبول ہوگا البتہ ہمارے پیارے ایسے لاپتہ نا کریں-

احتجاجی مظاہرین سے گفتگو کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات سے حراست بعد جبری لاپتہ بلوچ کارکن راشد حسین کے والدہ کا کہنا تھا جب بھی احتجاج کی سنتی ہوں دوڑے چلی آتی ہوں تاکہ کوئی میری فریاد سننے والا ہو لیکن نا ہمیں یہاں میڈیا سنتی ہے نا عدالتیں عدالتوں میں ہمیں کہا جاتا ہے آپ کو بچوں کی نہیں پیسوں کی ضرورت ہے ہماری تذلیل کی جاتی ہے دھتکارا جاتا ہے-

راشد حسین کے والدہ کا مزید کہنا تھا ظلم اور جبر کی کوئی حد ہوتی ہے جب ریاست کی جانب سے توتک جیسے واقعات ہونگے تو سمیعہ جیسے بچیاں سخت اُٹھانے پر مجبور ہونگے ریاست کو چاہیے اب ہماری اذیت ختم کرکے ہمارے پیارے ہمیں لوٹا دیں۔

خیال رہے عید کے پہلے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور ساحلی شہر گوادر میں بھی جبری گمشدگیوں کیخلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئی اور مظاہرے کئے۔

علاوہ ازیں بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کی بازیابی کے مطالبے کیساتح سماجی رابطوں کی  سائٹ ٹوئٹر پر کیمپئن چلائی گئی۔-

پاکستان کے سول سوسائٹی اور بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بازیابی کے لئے مختلف ہیش ٹیگ ترتیب دیے گئے جہاں ہزاروں کی تعداد میں شہری ان ہیش ٹیگ کو استعمال میں لاتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں-

ان افراد کا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات کا سلسلہ طویل ہے جبکہ سب سے زیادہ جبری گمشدگیوں سے متاثر ہونے والا بلوچستان آج بھی اس ظلم کا شکار ہے-