پاکستان اور چین کا 4.8 ارب ڈالر کے جوہری بجلی گھر منصوبے پر دستخط

154

پاکستان اور چین نے 1200 میگاواٹ کے جوہری بجلی گھر منصوبے ’چشمہ فائیو‘ کی تعمیر کے لیے منگل کو مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں 4.8 ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے پر چین کی نیشنل نیوکلیئر کوآپریشن اوورسیز کمپنی کے صدر وانگ یونگ جی اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اعلیٰ عہدیدار محمد سعید الرحمٰن نے اسلام آباد میں دستخط کیے۔

پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ حکومت اس منصوبے کو بلاتاخیر شروع کرے گی اور انہوں نے ملک میں چینی سرمایہ کاری کے عزم کو سراہا۔

یہ منصوبہ صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں چشمہ کے مقام تعمیر کیا جائے گا جہاں اسے قبل بھی جوہری بجلی گھر موجود ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دو سال قبل پاکستان نے جب اپنے چھٹے جوہری بجلی گھر کا افتتاح کیا تھا تو جوہری توانائی سے ملک کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 1400 میگاواٹ ہو چکی تھی۔

اس سے قبل پاکستان کے ساحلی شہر کراچی میں چین کے تعاون سے پاکستان 1100 میگاواٹ کا جوہری بجلی گھر تعمیر کر چکا ہے۔

سرکاری میڈیا کےمطابق مسلم لیگ ن کے گذشتہ دور حکومت 2017 میں اس منصوبے کی تعمیر کا اصولی فیصلہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں آنے والی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس منصوبے پر لاگت 2017 کی ہی رکھی گئی ہے اور چینی حکومت نے افراط زر کے مطابق لاگت بڑھنے کے باوجود تقریباً 30 ارب روپے یا 10 کروڑ ڈالر کی رعایت بھی دی ہے۔

یہ واضح نہیں کہ اس بجلی گھر کی تعمیر پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری ’سی پیک‘ کے لگ بھگ 65 ارب ڈالر کے منصوبوں کے تحت ہو گی یا نہیں۔

پاکستان کی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ درآمد کردہ فرنس آئل کی بجائے پانی، ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار بڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر بچا سکے۔

گذشتہ ہفتے وزیراعظم نے متبادل ذرائع سے توانائی بالخصوص شمسی توانائی سے متعلق پالیسی سازی پر ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت نے متبادل ذرائع، خاص طور پر شمسی ذرائع سے بجلی کی پیداوار کے لیے اقدمات یقینی بنائے ہیں۔

انہوں نے ہدایت کی تھی کہ سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شمسی توانائی سے نہ صرف کم لاگت بجلی کی پیداوار ممکن ہوگی بلکہ قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جا سکے گا۔